دریائے سندھ کے کچھوؤں کو ’سوپ‘ بننے سے بچانے کی کوشش

دریا میں پانی کی کمی کے بعد بلہن یا انڈس ڈولفن اور میٹھے پانی کے کچھوؤں سمیت دیگر آبی حیات ظاہر ہو گئی۔

سکھر بیراج کو ہر سال بند کرنے کے بعد گُدو بیراج سے دریائے سندھ کا پانی بند ہونے پر ظاہر ہونے والے متعدد کچھوؤں کو ریسکیو  کیا جا رہا ہے۔

محکمہ جنگلی حیات سندھ، انڈس ڈولفن مرکز سکھر، ڈسٹرکٹ وائلد لائف سکھر اور ماہی گیروں کی مشترکہ ٹیم نے جمعرات کو سکھر بیراج اور بیراج سے منسلک کینالوں کے دروازوں کے پاس ظاہر ہونے والے متعدد کچھوؤں کو حفاظتی تحویل میں لے لیا ہے، جنہیں جلد ہی دریائے سندھ میں ریلیز کیا جائے گا۔ 

پاکستان میں ہر سال دریائے سندھ پر قائم پانچ بیراجوں کی سالانہ مرمت اور صفائی کا کام کیا جاتا ہے۔ اس مرمت اور صفائی کا آغاز پنجاب کے جناح بیراج سے ہوتا ہے، جس کے بعد تونسہ اور پھر سندھ کے گُدو بیراج کی مرمت کی جاتی ہے۔

اس وقت سکھر بیراج کی مرمت کا کام ہو رہا ہے جس کے بعد جامشورو میں واقع کوٹری بیراج کی مرمت کی جائے گی۔

سکھر بیراج کی مرمت کے لیے گُدو بیراج کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں تاکہ سکھر بیراج پر صفائی اور مرمت کا کام کیا جا سکے۔

دریا میں پانی کی کمی کے بعد بلہن یا انڈس ڈولفن اور میٹھے پانی کے کچھوؤں سمیت دیگر آبی حیات ظاہر ہو گئی۔

دریائے سندھ میں آٹھ اقسام کے کچھوے پائے جاتے ہیں، جن میں چار اقسام نرم خول والے اور چار اقسام سخت خول والے کچھوؤں کی ہے۔ نرم خول والے کچھوے کو مارنے کے بعد اس کے خول کو خشک کر کے بیرون ملک سمگل کیا جاتا ہے۔

محکمہ جنگلی حیات سندھ کے صوبائی کنزرویٹر جاوید احمد مہر کے مطابق اگر کچھوے کا خول پاکستان سے باہر چلا جائے تو ایک خول کی قیمت 80 ہزار پاکستانی روپوں تک ہوتی ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید احمد مہر نے کہا کہ ’میٹھے پانی کے کچھوے پانی میں موجود کوڑے کرکٹ اور مردہ آبی جانوروں کو کھا کر پانی کو صاف رکھتے ہیں۔ مگر جب ہر سال دریا خشک ہو جاتا ہے تو بڑی تعداد میں شکاری آجاتے ہیں۔‘

’اس کے علاوہ کچھوے بیراج اور کینالوں کے دروازوں میں پھنس جاتے ہیں۔ تو ہمیں پھنسے ہوئے کچھوؤں کو نکالنے کے ساتھ ان کو شکاریوں سے بھی بچانا ہوتا ہے۔‘ 

سکھر بیراج کے قریب دریائے سندھ میں پائے جانے والے کچھوے بڑے سائز کے ہوتے ہیں۔

انچارچ انڈس ڈالفن مرکز سکھر میر اختر تالپور کے مطابق ’ہمارے کچھوؤں کو ڈالفن کی طرح خطرات ہیں۔ خاص طور پر نرم خول والے کچھوؤں کو کیونکہ کچھ لوگ اس کا سوپ بنانے کے لیے سمگلنگ کرتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس سال پہلی بار میٹھے پانی کے کچھوؤں کا وزن کرنے کے ساتھ ان کو ماپنے کی کوشش بھی ہے۔

’آج وزن کیا تو کچھ کچھوے 30 کلو وزنی اور دو اعشاریہ چار فٹ لمبے تھے۔ اس کے علاوہ کچھ کچھوے آٹے کی بھری بوری جتنے وزنی ہوتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا