’پناہ کا اہل‘ افغان خاندان نو ماہ سے برطانیہ جانے کا منتظر

منگل کو ریان کو ہزاروں دیگر افراد کی طرح برطانوی وزارت دفاع کی جانب سے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں انہیں خبردار کیا گیا کہ 2022 میں ڈیٹا ضائع ہونے کے باعث ’اس ای میل ایڈریس سے منسلک کچھ ذاتی معلومات افشا ہو سکتی ہیں۔‘

ریان اور ان کا خاندان برطانیہ منتقل ہونے کا گذشتہ نو ماہ سے انتظار کر رہا ہے (دی انڈپینڈنٹ)

ریان اور ان کے اہل خانہ نے گذشتہ 271 دن پاکستان میں واقع ایک تنگ اور معمولی سے ہوٹل کے کمرے کی اسی چار دیواری کو گھورتے ہوئے گزارے۔ انہیں نو ماہ قبل ان کے والد کے ماضی میں برطانوی سپیشل فورسز کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے برطانیہ میں پناہ کا اہل قرار دیا گیا لیکن وہ اب تک برطانیہ جانے کے منتظر ہیں اور انہیں اپنے طویل مدتی تحفظ کے حوالے سے خدشات لاحق ہیں۔

منگل کو ریان کو ہزاروں دیگر افراد کی طرح برطانوی وزارت دفاع کی جانب سے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں انہیں خبردار کیا گیا کہ 2022 میں ڈیٹا ضائع ہونے کے باعث ’اس ای میل ایڈریس سے منسلک کچھ ذاتی معلومات افشا ہو سکتی ہیں۔‘

جب ریان نے حکومت کے دیے گئے سسٹم میں اپنے خاندان کا درخواست نمبر درج کیا تو فوراً سرخ رنگ کا انتباہ ظاہر ہوا جس سے معلوم ہوا کہ وہ افغانستان ڈیٹا لیک سے متاثر ہوئے ہیں، جس میں برطانوی فورسز سے وابستہ 18 ہزار 700 افراد کے نام اور رابطے کی معلومات غلطی سے شیئر کی گئیں۔

افغان شہریوں کی دوبارہ آبادکاری کے لیے وزارت دفاع میں جمع کرائی گئی درخواستوں سے متعلق معلومات کا یہ تباہ کن افشا برطانوی مسلح افواج کے ایک اہلکار کی غلطی سے ہوا، جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر ایک لاکھ افراد طالبان کے انتقامی حملوں کی زد میں آ سکتے ہیں۔

ریان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ یہ جاننا کہ اس افشار سے ان کے خاندان کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے ’انتہائی تکلیف دہ تجربہ‘ تھا۔ طالبان پہلے ہی ان کے خاندان کا گھر جلا چکے ہیں اور ان کے والد کے سابقہ کردار کے باعث خاندان کے کچھ افراد کو گرفتار بھی کر چکے ہیں۔

اب ریان کو شدت سے صرف ایک سوال کا جواب چاہیے کہ انہیں محفوظ ہونے کے لیے کب برطانیہ منتقل کیا جائے گا؟

پاکستان سے نکلنا اس خاندان کے لیے فوری نوعیت کی ضرورت بن چکا ہے۔ ریان نے بتایا کہ تین ماہ قبل پاکستانی پولیس نے ان کے پورے خاندان کو گرفتار کر کے ملک بدری کے لیے قائم مرکز میں پہنچا دیا جس کے بعد انہیں یہ خوف لاحق ہو گیا کہ کہیں انہیں طالبان کے حوالے نہ کر دیا جائے۔

اسلام آباد میں اسی ہوٹل جسے برطانوی حکومت نے برطانیہ میں پناہ کے اہل افغان شہریوں کے لیے استعمال کر رہی ہے، سے بات کرتے ہوئے ریان نے بتایا: ’ہم نے پاکستان سے 24 خاندانوں کو برطانیہ جاتے دیکھا لیکن ہمارا خاندان ابھی تک یہاں انتظار کر رہا ہے۔ ہمارے ویزے ختم ہو چکے ہیں اور کم از کم تین مرتبہ پاکستانی پولیس نے ہمیں گرفتار کرنے کی کوشش کی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ایک مرتبہ ہمارے پورے خاندان کو گرفتار کر کے ملک بدری کے لیے بنائے گئے مرکز میں لے جایا گیا۔ تقریباً تین ماہ پہلے اتوار کے صبح کے 10 بجے تھے۔ ہم اپنے کمروں میں  تھے کہ ہوٹل کے مینیجر نے بتایا کہ پولیس ہمارے ویزوں کے بارے میں پوچھ رہی ہے۔ میں نے انہیں پاکستان میں برطانوی ہائی کمیشن کی طرف سے جاری کردہ اجازت نامے دکھائے، لیکن انہوں نے کہا کہ یہ قابل قبول نہیں۔‘

ریان نے بتایا کہ انہیں ملک بدر کرنے کے قائم مرکز لے جایا گیا، جہاں انہیں دھمکی دی گئی کہ اگلے روز انہیں واپس افغانستان بھیج دیا جائے گا۔ خوش قسمتی سے انہوں نے ایک پولیس اہلکار کو رقم دے کر ان کا فون استعمال کیا اور کئی کوششوں کے بعد اپنے کیس پر کامر کرنے والے شخص کے ساتھ رابطہ کیا، جنہوں نے ان کے پاکستان میں قیام کے جواز کی تصدیق کی۔

’تقریباً 30 گھنٹے بعد برطانوی ہائی کمیشن کے ایک سفارت کار آئے، جس کے بعد ہمیں وہاں سے باہر نکلنے کی اجازت ملی۔‘

اب ریان کے خاندان کے تمام 16 افراد ہوٹل کے تین کمروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اس دوران خاندان میں دو بچے بھی پیدا ہو چکے ہیں، جن میں سے ایک چار ماہ اور دوسرا سات ماہ کا ہے۔

ریان نے بتایا کہ ہر کمرے میں صرف ایک ہی بستر ہے، جس کی وجہ سے خاندان کے دیگر افراد زمین پر گدے بچھا کر سونے پر مجبور ہیں۔

طالبان کی جانب سے ان کے گھر کو جلائے جانے کے بعد خاندان کے پاس کوئی رقم یا سامان نہیں بچا اور وہ دوسروں کی مہربانی پر ہی گزارہ کر رہے ہیں۔

’جب ہمارے بچے پیدا ہوئے تو ہم نے اپنے کیس پر کام کرنے والے شخص سے بچوں کی خاطر کچھ ضروری سامان کے لیے مدد مانگی ۔ ہم نے انہیں بتایا کہ طالبان ہمارے گھر کو جلا چکے ہیں اور ہمارے پاس پیسے نہیں۔ پاکستان میں شدید سردی تھی اور ہم بچوں کے لیے چیزیں خریدنے کے قابل نہیں تھے۔‘

’مجبوراً ہمیں دوسرے افغان خاندانوں سے رجوع کرنا پڑا جنہوں نے ہماری بیٹی کو کچھ کپڑے فراہم کیے۔ وہ کپڑے اسے بڑے تھے لیکن ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔‘

منگل کو افغان شہریوں کے معاملے پر کام کرنے والی وزارت دفاع کی  ٹیم کی جانب سے جب پہلی مرتبہ ریان کو ای میل موصول ہوئی تو انہوں نے امید کی کہ شاید اس میں ان کی حفاظت کے لیے منتقلی کی خوش خبری ہو گی لیکن ان کا خیال غلط ثابت ہوا۔

’اس وقت ہمیں برطانیہ کی طرف سے آنے والی ای میلز سے بھی ڈر لگتا ہے، کیوں کہ ہمیں یہ خوف ہے کہ کہیں وہ ہمیں مسترد نہ کر دیں۔ پہلی ای میل میں لکھا تھا کہ ہمارا ڈیٹا لیک ہوا ہے۔ دوسری ای میل میں بتایا گیا کہ ہم اپنا ڈیٹا کی پڑتال کر سکتے ہیں۔‘

’جب میں نے چیک کیا تو پتہ چلا کہ ہمارا ڈیٹا لیک میں شامل تھا۔ یہ انتہائی خوفناک تجربہ تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں فٹ بال کے میدان میں گیند ہوں اور ہر کوئی مجھے ادھر سے اُدھر ٹھوکریں مار رہا ہے۔‘

اس سب کے باوجود اس خاندان کے لیے انتظار کی اذیت اب بھی ختم نہیں ہوئی اور وہ اب تک نہیں جانتے کہ انہیں کب برطانیہ منتقل کیا جائے گا۔

برطانوی وزارت دفاع سے اس حوالے سے مؤقف کے لیے رابطہ کیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا