حتیٰ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنے معیار کے مطابق بھی، اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ دو طرفہ ملاقات کے بارے میں ان کا ابتدائی تجزیہ غیر معمولی حد تک پُرامید تھا۔
انہوں نے وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس میں کہا ’ہم ولادی میر پوتن سے ملاقات کرنے جا رہے ہیں اور اس ملاقات کے اختتام پر غالباً پہلے ہی دو منٹ میں، مجھے بالکل پتہ چل جائے گا کہ کوئی معاہدہ ہو سکتا ہے یا نہیں، کیوں کہ میں یہی کرتا ہوں۔ میں معاہدے کرتا ہوں۔‘
یہ ٹرمپ کا مخصوص انداز ہے۔ شیخی بازی۔ معنی سے عاری ہونا اور بے حد غیر متاثر کن۔
جمعے کو جب ٹرمپ الاسکا میں روسی صدر کو مذاکرات کے لیے خوش آمدید کہیں گے تو پوتن موٹے اور نوزائیدہ سؤر کے بچے کو گھورتے ہوئے اژدھے کی طرح، ان کی روح کھینچ لیں گے اور پھر ان کا ناشتہ کر لیں گے جیسے وہ ہر اُس موقعے پر کر چکے ہیں جب بدقستمی سے اس یکسر غیر متوازن جوڑی کو آپس میں ملاقات کا موقع ملا۔
سٹیو وٹکوف جو ٹرمپ کے جیسے ہی بے بس ایلچی ہیں، شکاری پوتن کے لیے پہلے ہی ہلکا پھلکا ناشتہ ثابت ہو چکے ہیں۔
سابق سوویت یونین کے خفیہ ادارے کے جی بی کے چالاک اور بے رحم سابق افسر جلد ہی ریئل سٹیٹ کے شعبے کے بھڑکیلے اناڑی کو بھی زیر کر لیں گے کیوں کہ ٹرمپ کے بارے میں بنیادی حقیقت سب کے سامنے ہے اور اس کے لیے کسی تفصیلی نفسیاتی تجزیے کی ضرورت نہیں۔ وہ ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ الاسکا جا رہے ہیں، لیکن انہوں نے تو یہ بھی کہا تھا کہ وہ روس جا رہے ہیں، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ہمیں بہت زیادہ تشویش ہونی چاہیے۔ یہ ایک طرح سے یہ عجیب بات ہے کیوں کہ ٹرمپ نے گذشتہ چند ہفتوں میں اشارہ دیا تھا کہ وہ پوتن سے ’مایوس‘ ہیں اور انہیں شبہ ہے کہ ان کے ساتھ کھیل کھیلا جا رہا ہے، لیکن وہ پوتن کے ساتھ معاملہ ’ختم‘ کرنے سے انکاری ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے نامہ نگار کا یہ سوال بالکل درست تھا کہ ٹرمپ کو ’شاید‘ یہ کیسے پتہ چل جائے گا کہ کوئی معاہدہ ممکن ہے یا نہیں، محض 120 سیکنڈ میں، جو ٹرمپ کے لیے منرل واٹر کی بوتل کھولنے کے لیے بھی بمشکل کافی وقت ہے۔
کیا واقعی ٹرمپ کے پاس کوئی ایسی ناقابل خطا ماورائی طاقت ہے، جو یہ محسوس کر سکے کہ مستقبل قریب میں حالات کیسے ہوں گے؟ اگر ایسا ہے تو اس غیر معمولی صلاحیت کا ثبوت کہاں ہے؟
یقیناً اس کا ثبوت ان کے کاروبار میں حاصل ہونے والی ملی جلی کامیابیوں میں تو نہیں ملتا۔
کِم جونگ اُن کے ساتھ ہونے والی دو مبینہ تاریخی سربراہ ملاقاتوں پر زیادہ غور نہ کریں، جو ٹرمپ کی اس عجیب خواہش کو پورا کرنے میں ناکام رہیں کہ شمالی کوریا کے ساحل پر ایک گولف ریزورٹ تعمیر کیا جائے۔
2018 میں اس وقت غیر جانبدار فن لینڈ میں ہونے والی آخری ٹرمپ پوتن سربراہ ملاقات ایک مضحکہ خیز منظر تھی، جہاں امریکی صدر نے اپنے ملک کے خفیہ اداروں کو کمتر قرار دیا اور ان کی بجائے روسی رہنما کی بات پر یقین کر لیا۔
ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکی انتخابات میں روس کی جانب سے کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔ ’صدر پوتن کہتے ہیں یہ روس نہیں۔ میں کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ ایسا کیوں کر ہو گا۔‘
جب دانستہ طور پر سادہ لوح ٹرمپ نے روسی آمر سے ون ٹو ون ملاقات کی تو ان کے ساتھ روسی زبان کا صرف ایک مترجم موجود تھا۔
ٹرمپ کو شام کے بحران پر پوتن کی جانب سے کچھ نہیں ملا۔ انہیں یہ یقین دلایا گیا کہ روسی خفیہ سروس اپنے ان جاسوسوں سے خود پوچھ گچھ کر سکتی ہے جنہیں امریکیوں نے پکڑا۔
سربراہ اجلاس کے اختتام پر کسی معاہدے اعلان نہیں کیا گیا۔
یہ منظر ایسا تھا کہ اس کے حوالے سے روسیوں کے پاس ٹرمپ کے خلاف ’کمپرومات‘ یعنی کوئی سکینڈل بنانے والا مواد موجود ہونے کی کافی باتیں کی گئیں۔
روسی آمر سے اس بارے میں پوچھا بھی گیا جس پر پوتن نے مذاق میں کہا کہ امریکی کاروباری افراد ماسکو میں کیا کچھ کرتے رہتے ہیں؟
ایپسٹین فائلیں جاری کرنے سے انکار پر جو دباؤ ٹرمپ پر بڑھ رہا ہے، اس کے پیش نظر ممکن ہے کہ وہ یوکرین کی آزادی پر سودے بازی کرتے وقت ذہنی طور پر بکھرے ہوئے ہوں۔
دوسرے لفظوں میں، سودے بازی کا فن پوتن ہی سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انہیں کیا چاہیے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ ہار نہیں سکتے۔
وہ پہلے ہی اس پروپیگنڈے میں کامیاب ہو چکے ہیں جس میں انہوں نے خود کو بدمعاش ریاست کے تنہائی کے شکار رہنما سے بدل کر امریکہ کی برابری کرنے والا شراکت دار بنا کر پیش کیا۔
وہ یورپ کو اثر و رسوخ کے دائروں میں تقسیم کر رہے ہیں، جیسے ایک وقت میں سٹالن اور روزویلٹ نے کیا۔
تب بھی اور اب بھی، چھوٹی قوموں کو، حتیٰ کہ ونسٹن چرچل کی قیادت میں برطانیہ کو بھی، روس اور امریکہ کے طے کردہ فیصلے کو ایک اٹل حقیقت کے طور پر قبول کرنا پڑا۔
اس میں کوئی تعجب نہیں کہ امن کے عمل میں صدر زیلنسکی، صدر میکروں، چانسلر مرز اور وزیراعظم سٹارمر اگر کوئی کردار ادا بھی کریں تو وہ معمولی ہی ہوگا۔
ملاقات سے پہلے جتنی بھی قیاس آرائیاں ہو رہی ہوں، ہم سب جانتے ہیں کہ یہ کیسے آگے بڑھیں گی۔
پوتن یہ مطالبہ کریں گے کہ یوکرین کے مشرقی صوبوں میں سے زیادہ تر، اگر سب نہیں تو، اور ساتھ ہی کرائمیا، عملاً روس کا حصہ بن جائیں۔
فائر بندی تب ہی ممکن ہوگی اگر ٹرمپ اس شرط کو، خفیہ طور پر یا اعلانیہ، مان لیں۔ اس کے بدلے میں زیلنسکی کو بحیرہ اسود کے ساحل کا ایک چھوٹا سا حصہ واپس دینے کی پیشکش کی جا سکتی ہے۔
ٹرمپ کی زبان میں ’سمندر کے قریب قیمتی جائیداد۔‘
ٹرمپ، زیلنسکی پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ روس پر اس آسان فتح کو قبول کر لیں۔
اگر زیلنسکی یا یوکرینی عوام اس ’معاہدے‘ کو مسترد کر دیں، تو ٹرمپ انہیں چھوڑ دیں گے۔
اس کے بعد پوتن اپنی سست لیکن نہ رکنے والی جارحانہ کارروائیاں جاری رکھ سکیں گے اور آخرکار روس کی تباہ کن جنگی طاقت غالب آ جائے گی۔
یوکرین مٹ جائے گا۔ پوتن اپنے اگلے ہدف کے لیے تیار ہوں گے اور ممکن ہے کہ امریکہ جاگ جائے اور یہ سمجھ لے کہ آخر ہو کیا رہا ہے، چاہے ٹرمپ انکار ہی کرتے رہیں۔
خواہ کچھ بھی ہو یعنی الاسکا میں کوئی معاہدہ ہو یا نہ ہو، پوتن کو یوکرین کا بہت سارا علاقہ مل جائے گا۔
© The Independent