کیا امریکی عوام کی اکثریت تیسری سیاسی جماعت بنانا چاہتی ہے؟

ایلون مسک نے دھمکی دی ہے کہ اگر امریکی کانگریس نے صدر ٹرمپ کے مالیاتی بل کو پاس کر دیا تو وہ اگلے دن ہی ایک تیسری سیاسی جماعت کا اعلان کر دیں گے، جس کا نام بھی انہوں نے ’امریکہ پارٹی‘ رکھ دیا ہے۔

پانچ جون 2025 کو بنائی گئی تصاویر کے اس مجموعے میں بائیں جانب ارب پتی ایلون مسک 30 مئی 2025 کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں نظر آرہے ہیں جبکہ دائیں جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 26 مئی 2025 کو یادگاری دن کے موقع پر ورجینیا کی کاؤنٹی آرلنگٹن میں موجود ہیں (ایلیسن رابرٹ، ساؤل لوئب / اے ایف پی)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی ارب پتی تاجر ایلون مسک کے درمیان رسہ کشی اب ایک نئی نہج پر پہنچ چکی ہے، جہاں پر ایلون مسک نے دھمکی دی ہے کہ اگر امریکی کانگریس نے صدر ٹرمپ کے مالیاتی بل کو پاس کر دیا تو وہ اگلے دن ہی ایک تیسری سیاسی جماعت کا اعلان کر دیں گے، جس کا نام بھی انہوں نے ’امریکہ پارٹی‘ رکھ دیا ہے۔

امکان ہے کہ امریکہ کے یومِ آزادی، چار جولائی کو کانگریس اس بل کو پاس کر دے گی۔

امریکی سیاسی نظام میں اب تک تیسری سیاسی جماعت کیوں نہیں ابھر سکی؟ اس سے پہلے تیسری سیاسی جماعت کے طور پر کون کون سی سیاسی جماعتیں موجود ہیں اور وہ کیوں مقبول نہیں ہو سکیں؟ کیا ایلون مسک کی مجوزہ سیاسی جماعت  قومی سطح پر  کوئی اہم کامیابی حاصل کر سکے گی؟

یا پھر امریکی مالیاتی اور سیاسی بحران اتنا گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ اس کے نتیجے میں امریکی قوم بھی اب تقسیم در تقسیم کی طرف گامزن ہے اور شاید یہی وہ مناسب وقت ہے، جب تیسری سیاسی  جماعت ابھر سکتی ہے۔

امریکہ میں کتنی سیاسی جماعتیں رجسٹر ہیں؟

جنوری 2025 تک امریکہ میں 55 ایسی سیاسی جماعتیں موجود ہیں، جنہیں ووٹ لینے کا حق حاصل ہے جبکہ 238 سیاسی جماعتیں ایسی ہیں، جو صرف ریاستی سطح پر اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم صرف ڈیموکریٹ اور رپبلکن ہی ایسی دو سیاسی جماعتیں ہیں، جو 50 ریاستوں بشمول واشنگٹن ڈی سی میں تسلیم شدہ ہیں۔ ان دو جماعتوں کے علاوہ لبرٹیرین پارٹی 38، گرین پارٹی 23 اور کانسٹی ٹیوشن پارٹی 12 ریاستوں میں ووٹ لینے کی اہل ہیں۔

امریکہ کی ہر ریاست میں مختلف انتخابی قوانین ہیں، اس لیے ہر ریاست کے اندر کسی بھی پارٹی کا امیدوار بننے اور اپنا نام کسی تیسری پارٹی کے امیدوار کے طور پر بیلٹ پیپر پر لانے کے لیے الگ الگ  قوانین سے واسطہ پڑتا ہے۔

مثال کے طور پر کسی ریاست میں اس مقصد کے لیے پٹیشن کی ضرورت ہوتی ہے تو کسی میں امیدوار کے لیے مخصوص ووٹ حاصل کرنا لازم ہوتا ہے اور کسی ریاست میں رجسٹر کرنے سے پہلے ہی اپنے رجسٹر ووٹوں کی حمایت دکھانی پڑتی ہے۔

صرف دو بڑی جماعتوں کو ہی تمام ریاستوں میں پرائمری الیکشن کی اجازت دی گئی ہے۔ کچھ ریاستوں میں چھوٹی جماعتوں کو پرائمری الیکشن کی اجازت نہیں ہے، اس لیے وہاں پر ان جماعتوں کے امیدوار صرف عام انتخابات میں ہی حصہ لے سکتے ہیں۔

ایلون مسک تیسری سیاسی جماعت کیوں چاہتے ہیں؟

ایلون مسک نے صدر ٹرمپ کی حالیہ انتخابی مہم میں 275 ارب ڈالر کی رقم عطیہ کی تھی، جس کے بعد ٹرمپ نے انہیں کابینہ میں بھی شامل کیا لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور جلد ہی دونوں کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گئے۔

ٹرمپ کہتے ہیں کہ اگر انہوں نے ایلون مسک کی کمپنیوں کو دی جانے والی وفاقی مراعات ختم کر دیں تو ایلون مسک اپنے آبائی وطن جنوبی افریقہ لوٹنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

دوسری جانب ایلون مسک کا مؤقف ہے کہ ڈیموکریٹ اور رپبلکن دونوں سیاسی جماعتیں اشرافیہ کی نمائندہ بن چکی ہیں، جو 80 فیصد امریکی عوام کی نمائندگی نہیں کرتیں۔

صدر ٹرمپ بھی قومی خسارہ کم کرنےکا حل خسارے کی حد بڑھا کر کرنا چاہتے ہیں اور اگر یہی روش جاری رہی تو امریکہ دیوالیہ ہو جائے گا۔ خسارے کی حد بڑھانے کا بل اگر کانگریس منظور کر لیتی ہے تو اس صورت میں ایلون مسک نئی سیاسی جماعت بنانے کے اعلان کو عملی جامہ پہنا سکیں گے یا نہیں؟ اس کا انحصار رائے عامہ پر ہے کہ وہ کیا سوچ رہی ہے۔

کیا امریکی عوام تیسری سیاسی جماعت چاہتے ہیں؟

ایلون مسک جن کے ایکس پر 22 کروڑ سے زیادہ فالورز ہیں، انہوں نے ایکس پر ایک سروے کے ذریعے پوچھا کہ کیا امریکہ میں نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے؟ تو اس کے جواب میں 80.5 فیصد نے ’ہاں‘ میں جواب دیا۔

گذشتہ سال ستمبر میں گیلپ کی جانب سے کیے گئے ایک سروے میں 53 فیصد ڈیموکریٹ اور 48 فیصد رپبلکن ووٹرز نے تیسری سیاسی جماعت کے حق میں رائے دی تھی جبکہ ایسے ووٹرز جو خود کو کسی سیاسی جماعت کے رکن کے طور پر رجسٹر نہیں کرواتے، ان میں سے 69 فیصد تیسری سیاسی جماعت کے حق میں تھے۔

پیو ریسرچ کے مطابق امریکہ کے کل ووٹرز میں سے 38 فیصد ایسے ہیں، جنہوں نے خود کو کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ نتھی نہیں کر رکھا۔ گیلپ کے مطابق گذشتہ دو دہائیوں میں یہ بارہواں موقع ہے جب اکثریتی عوام کی رائے تیسری سیاسی جماعت کے حق میں ہے۔

امریکی عوام دونوں سیاسی جماعتوں سے نالاں کیوں ہیں؟

امریکہ میں بڑھتے ہوئے مالیاتی مسائل کی کوکھ سے ایک نیا طبقہ ابھر رہا ہے، جو امریکہ کے مستقبل کے بارے میں پرامید نہیں ہے۔ یہ لوگ خسارے میں کمی، آزاد تجارت اور ہنرمند امیگریشن کے خواہاں ہیں۔

امریکہ میں ان کے لیے ’نیو لبرلز‘ یا ’گلوبلسٹس‘ جیسے القابات استعمال کیے جاتے ہیں، جو یہ سمجھتے  ہیں کہ امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ان کے خیالات کی نمائندگی نہیں کرتیں اور جن کا یہ بھی ماننا ہے کہ جس کے پاس اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے جتنا زیادہ پیسہ ہوتا ہے، اس کے جیتنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے جو سرمایہ دار ان پر پیسہ لگاتے ہیں، وہی ان سے اپنی مرضی کی پالیسیاں بنواتے ہیں۔ 

پیو ریسرچ کے مطابق صرف 40 فیصد امریکی دونوں سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک کے حق میں ہیں جبکہ اکثریت چاہتی ہے کہ تیسری جماعت کو موقع ملے لیکن کسی کو بھی تیسری جماعت کے کامیاب ہونے کا یقین نہیں ہے، اس لیے وہ انہی سیاسی جماعتوں کے ساتھ واپس آ جاتے ہیں۔

حالیہ عرصے میں صدر ٹرمپ کی جانب سے سخت گیر امیگریشن قوانین کا نفاذ، تجارتی خسارے میں اضافے اور تجارتی پالیسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں سے مہنگائی کا خدشہ ہے۔

اس سے پہلے ڈیموکریٹس کی جانب سے معاشی ناہمواریوں میں اضافے، امریکہ میں بڑھتے ہوئے نسلی اور صنفی تعصب کی وجہ سے نیو لبرلز کی اکثریت دونوں سیاسی جماعتوں سے ناراض ہے، جو عام بات ہرگز نہیں ہے کیونکہ اس طبقے کو اب مالی اور ابلاغی محاذ پر زیادہ مؤثر سمجھا جاتا ہے۔

تیسری سیاسی جماعت کے قیام میں حائل رکاوٹیں اور امکانات

ایلون مسک اگر سیاسی پارٹی کا اعلان کرتے ہیں تو اس کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ وہ نیو لبرلز کو کس حد تک متاثر کر سکتے ہیں۔

بالخصوص اگر آنے والے دنوں میں امریکہ میں بلند شرح سود، مہنگائی اور قومی قرض کے معاملات سنگین ہو جاتے ہیں، ٹرمپ کی امیگریشن اور تجارتی پالیسیوں کے منفی نتائج نکلتے ہیں، تو اس صورت میں لیڈرشپ کا بحران پیدا ہوگا، جسے پُر کرنے کے لیے ڈیموکریٹس میں کوئی سحر انگیز رہنما سامنے نہ آسکا تو پھر حالات تیسری سیاسی جماعت کے لیے سازگار ہو سکتے ہیں۔

ٹرمپ کی مقبولیت کا گراف گر کر 30 فیصد تک آ چکا ہے، جو بالکل اتنا ہی ہے جتنا بائیڈن کا چار سالہ مدت کے اختتام پر تھا، تاہم یہ اتنا بھی آسان نہیں ہو گا کیونکہ اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکی انتخابی قوانین ہیں، جو دو پارٹی نظام کی آبیاری کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ 435 رکنی ایوانِ نمائندگان اور ریاستی اسمبلیوں کے 99.5 فیصد اراکین کا تعلق دو بڑی سیاسی جماعتوں سے ہے۔ امریکہ کی 10 ریاستوں کے ایک کروڑ سات لاکھ آزاد ووٹرز قانونی طور پر پرائمری الیکشنز میں کسی کو ووٹ دینے کے اہل ہی نہیں ہیں۔

تیسری سیاسی جماعت کو لانے کے لیے پہلے انتخابی قوانین کو بدلنا پڑے گا، تاہم الاسکا وہ پہلی ریاست ہے جس نے انتخابی قوانین میں بڑے پیمانے پر اصلاحات متعارف کروائی ہیں، جس کی پیروی اب یوٹاہ اور منیسوٹا کی جانب سے بھی کی جا رہی ہے۔

اس مقصد کے لیے کانگریس کو 1967 کے اس انتخابی ضابطے کو بدلنا ہو گا، جس کے تحت دو بڑی سیاسی جماعتوں کی اجارہ داری مستحکم ہوتی ہے۔ اس ضابطے میں تبدیلی کانگریس میں تجویز کی گئی ہے تاہم یہ قانون ابھی ووٹنگ کے مرحلے تک نہیں پہنچا۔

متناسب نمائندگی یعنی ووٹرز اپنی پہلی، دوسری اور تیسری ترجیح لکھے تاکہ کسی کا ووٹ ضائع نہ ہو۔ اس سے امریکی جمہوریت میں تنوع کے ساتھ ساتھ عوامی اعتماد بھی بڑھے گا۔ اس بل کی شہری آزادیوں اور شفاف انتخابی عمل کے حامی افراد بڑی تعداد میں حمایت کر رہے ہیں۔

وہ صدارتی انتخابات، جن پر تیسری جماعت کے امیدواروں نے اثر ڈالا

امریکہ میں دو جماعتی نظام رائج ہے تاہم صدارتی انتخابات میں کئی بار تیسری جماعت کے امیدواروں نے میدان پلٹ دیا۔ اگرچہ وہ خود تو جیت نہیں سکے تاہم ووٹ تقسیم ہونے کی وجہ سے انتخابی نتیجہ بدل گیا۔

سب سے بڑا اپ سیٹ  1912 کے صدارتی انتخاب میں ہوا، جب تیسری جماعت کے امیدوار نے دوسرے نمبر پر زیادہ ووٹ حاصل کر لیے۔ ان انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار ووڈرو ولسن، رپبلکن پارٹی کے ولیم ہاورڈ ٹف، پروگریسو پارٹی کے ٹھیوڈور روزویلٹ اور سوشلسٹ پارٹی کے ایگون وی ڈبز کے درمیان مقابلہ ہوا، جس میں ووڈرو ولسن نے 41.8 فیصد اور اس کے بعد پروگریسو پارٹی کے ٹھیوڈور روز ویلٹ نے دوسرے نمبر پر 27.4 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

ان انتخابات میں رپبلکن پارٹی کے ولیم ہاورڈ 23.2 فیصد کے ساتھ تیسرے اور سوشلسٹ پارٹی کے ایگن وی ڈبز چھ فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر آئے۔

اس کے بعد 1992 کے صدارتی انتخابات میں راس پیروٹ نے 19 فیصد ووٹ لیے، جس کی وجہ سے جارج ڈبلیو بش دوبارہ منتخب نہیں ہو سکے تھے۔

2000 میں گرین پارٹی کے صدارتی امیدوار رالف نادر کی وجہ سے الگور فلوریڈا میں ہار گئے تھے، جس کی وجہ سے وہ صدارتی انتخاب بھی جیت نہیں سکے۔

امریکی ریاست الاباما کے سابق گورنر جارج والیس نے 1968 کا انتخابی معرکہ لڑا تھا، جس میں انہوں نے جنوبی ریاستوں الاباما، میسی سیپی، آرکنساس اور جارجیا میں کامیابی حاصل کر کے 46 الیکٹورل ووٹ حاصل کر لیے تھے، جس کی وجہ سے ری پبلکن پارٹی کے رچرڈ نکسن اپنے مخالف ڈیموکریٹ پارٹی کے امیدوار ہابرٹ ہمفرے سے جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔

1980 کے صدارتی انتخابات میں انڈپینڈنٹ پارٹی کے جان بی اینڈرسن نے بھی 6.6 فیصد ووٹ حاصل کر لیے تھے۔

ایلون مسک کی اپنی مقبولیت کتنی ہے؟

ایلون مسک نے جب 2022 میں ٹوئٹر (موجودہ ایکس) کو 44 ارب ڈالر میں خریدا تھا، تو اس وقت بھی اس کے پیچھے ان کے سیاسی عزائم بتائے جاتے ہیں۔

انہوں نے یہ سودا کرتے وقت کہا تھا کہ وہ ایک ایسا پلیٹ فارم لانا چاہتے ہیں، جو دنیا بھر میں آزادی اظہار رائے کی ضمانت بن سکے۔

انہوں ںے صدر ٹرمپ کی حالیہ کامیابی میں اپنی مالیاتی مدد کے ساتھ ایکس پر انتخابی مہم کو بھی کریڈٹ دیا تھا، تاہم Quinnipiac University کے ایک حالیہ سروے کے مطابق امریکہ کے آزاد ووٹرز سے جب ایلون مسک کے بارے میں پوچھا گیا تو 59 فیصد ووٹرز نے ان کے لیے  ناپسندیدگی جبکہ صرف 29 فیصد نے ان کے لیے پسندیدگی کا اظہار کیا۔

تاہم آزاد ووٹرز کی بڑھتی ہوئی تعداد یہ ظاہر کرتی ہے کہ مستقبل میں یہ رائے بدل بھی سکتی ہے۔ 2000 میں آزاد ووٹرز کا تناسب 23 فیصد تھا، جو 2025 میں بڑھ کر 32 فیصد ہو چکا ہے۔

ایلون مسک کے پاس پیسہ ہے۔ اگر انہوں نے اپنے خزانے کے منہ کھول دیے اور انہوں نے ایسے کام کیے جو نیو لبرلز کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ امریکہ کے دو جماعتی نظام کی تاریخ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیں گے، تاہم وہ خود صدارتی امیدوار نہیں بن سکتے کیونکہ امریکہ کا صدر بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ امریکہ کا پیدائشی طور پر شہری ہو۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ