خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں حالیہ سیلاب اور بارشوں سے 200 سے زیادہ افراد کی جانیں جا چکی ہیں جہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ڈوبے ہوئے گھروں میں واپس جانے سے خوفزدہ ہیں کیونکہ علاقے میں مزید بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
24 سالہ یونیورسٹی طالب علم سہیل خان نے بتایا: ’سب لوگ خوف زدہ ہیں، بچے ڈرے ہوئے ہیں۔ وہ سو نہیں سکتے۔‘
ایک گھر کی چھت پر موجود، سہیل خان کے ساتھ دیگر 15 افراد بھی مزید بارش کے دوران ممکنہ سیلاب سے بچنے کے لیے یہاں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طوفانی بارشوں اور بادل پھٹنے سے آنے والے اچانک سیلاب نے ’قیامت کا منظر‘ پیدا کر دیا تھا۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق جمعے سے اب تک شمال مغربی علاقوں میں کم از کم 341 افراد اس قدرتی آفت کی نذر ہو چکے ہیں، جن میں سے 200 سے زائد صرف بونیر میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مرنے والوں میں 28 خواتین اور 21 بچے بھی شامل ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق شدید بارشوں نے شمالی اضلاع میں تباہی مچائی ہے جہاں زیادہ تر اموات اچانک آنے والے سیلاب میں ہوئیں۔ پہاڑی علاقوں میں سیلاب سے مکانات، عمارتیں، گاڑیاں اور گھریلو سامان بہہ گئے۔
خیبر پختونخوا کا ضلع بونیر اب تک سب سے زیادہ متاثر ہوا۔
بونیر کے گاؤں بیشونئی کلے کے رہائشی سہیل خان اور دیگر لوگ پیر کو اس وقت محفوظ مقامات کی طرف نکل گئے جب ایک برساتی نالہ، جو پہلے ہی بڑے پیمانے پر تباہی مچا چکا تھا، نئی بارش کے بعد دوبارہ کناروں کو چھونے لگا۔
سہیل خان اور دیگر مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہاں کے زیادہ تر رہائشی رشتہ داروں کے ہاں یا مقامی حکام کی طرف سے اونچے مقامات پر قائم عارضی کیمپوں میں مقیم ہیں۔
ریسکیو اہلکاروں کو تنگ گلیوں میں بھاری مشینری پہنچانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
بونیر کی مرکزی مارکیٹوں اور گلیوں میں دکانیں اور گھر پانچ فٹ تک کیچڑ میں دبے ہوئے ہیں جنہیں لوگ بیلچوں سے صاف کر رہے تھے۔ دوسری جگہوں پر گاڑیاں اور سامان تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے میں بکھرا ہوا تھا۔
خوف زدہ پہاڑوں پر چڑھ گئے
بونیر کے 26 سالہ دکاندار دیار خان نے کہا: ’اس اچانک آفت کے بعد لوگ اپنے گھروں سے باہر ہیں، وہ خوف زدہ ہو کر پہاڑوں پر چڑھ گئے ہیں۔‘
سرکاری افسر عابد وزیر نے روئٹرز کو بتایا کہ پیر کو موسلادھار بارش کے باعث ریسکیو آپریشن روکنا پڑا، تاہم کئی گھنٹوں بعد امدادی کارروائیاں دوبارہ شروع کر دی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہماری پہلی ترجیح سڑکیں کھولنا، عارضی پل بنانا اور متاثرین کو ریلیف پہنچانا ہے۔‘
پیر کو خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی شدید بارش اور اچانک سیلاب آیا، جن میں صوابی شامل ہے جہاں 11 افراد جان سے گئے۔
ڈپٹی کمشنر نصیر خان کے مطابق صوابی کی دور افتادہ وادی دارولی بالا میں اچانک سیلاب سے کئی مکانات منہدم ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ ’ریسکیو ٹیموں کو علاقے تک پہنچنے میں کئی گھنٹے لگے اور مقامی لوگوں نے بتایا کہ ان کے عزیز لاپتہ ہیں۔ متاثرہ افراد نے بتایا کہ 40 افراد پانی میں بہہ گئے ہیں۔‘
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے خبردار کیا کہ 21 اگست سے 10 ستمبر کے درمیان مزید دو بارشوں کے سلسلے مزید سیلاب کا باعث بن سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’یہ موسمیاتی نظام مزید شدت اختیار کر سکتا ہے اور بادل پھٹنے کے مزید واقعات بھی ہو سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اتھارٹی کے رسک اسیسمنٹ کے سربراہ سید محمد طیب شاہ نے کہا کہ عالمی حدت نے سالانہ مون سون کے پیٹرن کو بدل دیا ہے اور یہ اپنے معمول کے راستے سے تقریباً 100 کلومیٹر مغرب کی طرف کھسک گیا ہے۔
اتھارٹی کے مطابق متاثرہ علاقوں میں خوراک، ادویات، کمبل، خیمے، بجلی کا جنریٹر اور پمپ بھیجے گئے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ بونیر میں بادل پھٹنے کا غیر معمولی واقعہ پیش آیا، جس میں ایک گھنٹے کے دوران 100 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوئی۔ جمعے کی صبح صرف ایک گھنٹے میں 150 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
ڈیزاسٹر اتھارٹی نے اتوار کو کہا: ’موجودہ موسمی نظام پاکستان کے خطے پر فعال ہے اور آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران شدید سے انتہائی شدید بارشیں برسا سکتا ہے۔‘
اتھارٹی کے مطابق اس سال مون سون کے دوران ملک بھر میں اب تک 660 افراد کی اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔