لاہور میں محکمہ ماحولیات پنجاب کے دفتر میں پانی سے بھرے شیشے کے تین بڑے بڑے مرتبان رکھے ہیں، جن میں بہت تیزی سے چھوٹے چھوٹے بلبلے بننے کا ایک خوشنما نظارہ دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بلبلے بنانے والے مرتبان دراصل مائع درخت (لیکوئیڈ ٹری) ہیں۔
مائع درخت ایک ایسا آلہ ہے جو ہوا کو صاف کرنے کے لیے مائکرو الجی کا استعمال کرتا ہے اور روایتی درخت کی آکسیجن کی پیداوار کی نقل کرتا ہے لیکن ایک چھوٹی اور زیادہ مؤثر شکل میں۔
یہ بنیادی طور پر پانی اور مائکرو الجی سے بھرا ہوا ایک ٹینک ہے جو بالکل درخت کی طرح کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتا اور فوٹو سنتھیس کے ذریعے آکسیجن خارج کرتا ہے۔ ان آلات کو شہری علاقوں میں رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جہاں روایتی درختوں کے لیے جگہ محدود ہوتی ہے۔
ایجنسی برائے تحفظ ماحولیات (ای پی اے) کے ڈائریکٹر لیب محمد فاروق عالم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایک لیکویڈ ٹری اوسط درجے کے چار قدرتی درختوں کے برابر کاربن ڈائی آکسائیڈ صاف کر سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فاروق عالم نے بتایا کہ لیکویڈ ٹری ایسے درخت ہیں جنہیں مائع کے اندر اگایا جاتا ہے۔
’بے شک یہ ایک اصل درخت کی طرح نہیں دکھتا لیکن اسے ہم درخت اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس کی کارکردگی کا فنکشن ایک عام درخت کی طرح ہے۔ ایک عام درخت بھی فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو صاف کر کے استعمال کے قابل بناتا ہے اسی طرح یہ لیکویڈ ٹری بھی ہماری گاڑیوں اور انڈسٹریز سے نکلنے والی آلودگی کو جذب کرتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس میں ایلجی (یا کائی) استعمال ہوتی، بہت تیزی سے بڑھتی ہے، بہت زیادہ بائیو ماس تخلیق کرتی اور یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتی ہے۔
فاروق عالم کا کہنا تھا کہ لیکویڈ ٹریز فیصل آباد کے ایک نجی ادارے نے ای پی اے کے تعاون سے تیار کیا یے۔
امہوں نے بتایا کہ آئندہ 10 روز تک مشاہدہ کیا جائے گا کہ ایک لیکویڈ ٹری کتنی کاربن ڈائی آکسائڈ کو بائیو ماس میں تبدیل اور کس حد تک فضا کو صاف کرتا ہے۔
فاروق عالم کے مطابق اس درخت کو کسی بھی جگہ لگایا جا سکتا ہے۔ ’اس کے لیے مٹی کی ضرورت ہے نہ کسی بڑی جگہ کی۔ اس لیے اب وہ عمارتیں یا کمرشل پلازے، ہوٹل وغیرہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ درخت لگانے کی جگہ نہیں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ایک لیکویڈ ٹری پر آٹھ سے 10 لاکھ روپے کا خرچ آتا ہے۔
’اگر ہمارا یہ تجربہ کامیاب ہو جاتا ہے اور کمیٹی اس کی اجازت دیتی ہے تو ہم کمرشل عمارتوں کے لیے یہ درخت لگانا لازمی قرار دیں گے۔‘