ملیے بلتستان کے پہلے صاحب کتاب اردو شاعر سے

بلتستان کے سینیئر شاعر علی احمد قمر، جو چار زبانوں میں شاعری کرتے ہیں اور حکومتِ پاکستان سے ایوارڈ بھی وصول کیے۔

علی احمد قمر (دائیں سے دوسرے) کا تعلق بلتستان کے سرحدی گاؤں گوما سیاچن سے ہے لیکن ان کی پیدائش میسوری انڈیا کی ہے(تصویر: عاشق فراز)

اکہرا جسم مگر کسی حد تک خمیدہ، سر پر بالوں کی سفیدی زیادہ نمایاں اور چہرے پر داڑھی۔ علی احمد قمر سے مل کر نہیں لگا کہ وہ ادھیڑ عمری سے بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔

گفتگو کی تو کھلا کہ آواز میں بڑا طنطنہ اور جوش ہے حالانکہ اکثر لوگ اس عمر میں کھردری آواز کے مالک بن جاتے ہیں مگر علی احمد قمر کی آواز صاف اور اس میں کسی نوجوان کی سی تازگی اور فرحت موجود تھی۔

خنک دار آواز میں انہوں نے جب اشعار سنائے تو یوں لگا کہ جیسے کوئی نوجوان شاعر بڑے چاؤ سے اپنی قلبی واردات کو الفاظ کے مخملی لباس میں ملفوف پیش کر رہا ہے۔

علی احمد قمر کا تعلق بلتستان کے سرحدی گاؤں گوما سیاچن سے ہے لیکن ان کی پیدائش میسوری انڈیا کی ہے۔ کہاں پاکستان کا آخری کونا سلترو گوما اور کہاں مسوری انڈیا لیکن اس تعلق کا پس منظر بھی بڑا دلچسپ ہے۔

انڈیا پاکستان کے بٹوارہ سے پہلے بلتستان کے لوگ محنت مزدوری کے لیے، شملہ، نینی تال، میسوری، ڈلہوزی، کلو اور کرگل لداخ کا رخ کرتے تھے۔

وجہ یہ کہ یہ پہاڑی علاقے تھے، مزدوری ملتی تھی اور وہاں کا موسم معتدل تھا لہٰذا میدانی علاقوں کی نسبت ان جگہوں پر رہنا قابل برداشت تھا۔ ان متذکرہ جگہوں تک جانے کے لیے بڑا طویل پیدل راستہ اختیار کیا جاتا تھا۔ سکردو یا خپلو سے کرگل پھر لداخ وہاں سے پھر آگے ان جگہوں کی طرف جانا پڑتا تھا۔

علی احمد قمر کے والد بھی 1947 سے کافی پہلے میسوری گئے اور وہیں محنت و مزدوری کرکے شب و روز گزارنے لگے۔ ان کے کئی اور رشتہ دار اور علاقے کے لوگ بھی وہاں نان و نفقہ کے لیے خون پسینہ ایک کر رہے تھے۔ وہیں پر علی احمد قمر کا جنم ہوا۔

زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ برصغیر کی سیاسی فضا مکدر ہوگئی، طوفان اٹھ گیا ہر طرف خون پھیل گیا اور ہجرت کی المناک کہانیوں نے جنم لیا۔ یہ 1947 کا زمانہ تھا جب ریڈ کلف باؤنڈری کمیشن کے نقشوں کے تحت برصغیر کا بٹوارہ ہو رہا تھا۔

علی احمد قمر کا گھرانہ بھی ہجرت کر کے پہلے پہل لاہور پہنچا اور پھر وہاں سے مری جا کر بس گیا جہاں ان کی تعلیم و تربیت مکمل ہوئی۔

ہم نے جب ان سے اُردو شاعری کی طرف راغب ہونے اور شعر کہنے کے شوق کا پوچھا تو ان کہنا تھا کہ بطور علی احمد قمر ان کا نام آٹھویں جماعت میں درج ہوا اور اس نام کے پیچھے بھی ایک بڑی دلچسپ کہانی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ والد نے ان کا نام علی محاما رکھا تھا اور یہ بلتستان میں عام مروج نام تھا جو یقیناً علی محمد کا مقامی بگڑا تلفظ ہے۔

سکول میں اسے کچھ اور بگاڑ کر علی ماما لکھا گیا تھا جو آٹھویں جماعت تک جوں کا توں رہا۔ تاہم ہیڈ ماسٹر نے آٹھویں کلاس میں نام کی تبدیلی کے لیے خود ان سے دریافت کیا کہ کیا لکھا جائے یوں انہوں نے خود کو علی احمد قمر لکھوایا۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں شعرو سخن سے دلچسپی سکول دور سے شروع ہوئی تھی۔ ہمارے استفسار پر قمر صاحب نے بتایا کہ بعد ازاں جب انہوں نے باقاعدہ شاعری کی تو اس دوران انہوں نے جوش صاحب کی زمین پر ایک غزل لکھی۔

جوش صاحب کا مطلع کچھ یوں تھا: 

وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ

ان کے ایک ممدوح پروفیسر تھے وہ قمر صاحب کو جوش کی محفل میں لے گئے۔ پروفیسر صاحب جوش کے دوست تھے انہوں نے تعارف کرایا اور کہا کہ جوش صاحب یہ بلتستان سے ہیں اور آپ کی زمین پر کچھ شعر لکھ کر لائے ہیں۔

ملاحظہ فرمائیں۔ ادھر پروفیسر صاحب نے علی احمد قمر کے کان میں دھیرے سے کہا کہ اگر جوش صاحب کو اشعار گراں گزرے تو تمہاری کچھ خیر نہیں۔

لیکن حیرت یہ ہوئی کہ جب علی احمد قمر نے شعر سنائے تو جوش صاحب خاموش رہے، جس پر یہ صاد کیا گیا کہ غزل جوش کی طبع نازک پر گراں نہیں گزری، یعنی قبولیت مل گئی۔

ان کی غزل کےاشعار کچھ یوں ہیں:

دن میں سیاہ شب کی دعا مانگتے ہیں لوگ
اپنے کیے کی خود ہی سزا مانگتے ہیں لوگ

یہ سوچتے نہیں کہ شجر خشک کیوں ہوا
لیکن اسی سے سایہ گھنا مانگتے ہیں لوگ

ہر شام انتظار سا رہتا ہے ابر کا
محبوس بستیوں میں ہوا مانگتے ہیں لوگ

قامت میں اپنی سوچ سے بڑھتے نہیں قمر
سایہ بھی اپنے قد سے بڑا مانگتے ہیں لوگ

علی احمد قمر کی شعری تخلیقات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا ذہنی میلان غزل کی طرف زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے زیادہ تر شعری مجموعے جو شائع ہو چکے ہیں وہ غزلوں پر مشتمل ہیں۔ ان میں پہلا مجموعہ ’زخم گل‘ 1976 میں شائع ہوا۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ غالباً بلتستان کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہیں جن کا اردو میں پہلے پہل کلام منظر عام پر آیا۔

گو کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راجہ محمد علی شاہ بیدل، راجہ محمد علی شاہ صبا اور شمیم بلتستانی بھی بہت پہلے سے اردو میں شعر کہہ رہے تھے لیکن ان میں سے کسی کی بھی کوئی کتاب 1976 سے پہلے شائع نہیں ہوئی تھی۔

زخم گل کے بعد علی احمد قمر کی اگلی کتاب ’گرد ملال‘ 1994 میں ’لمس‘ 2008 میں ’لوح‘ 2009 میں، اور ’زنجبیل‘ 2011 میں شائع ہوئیں۔

جہاں انہوں نے اردو میں بہت کچھ لکھا وہیں وہ اپنی مادری زبان کو بھی بالکل نہیں بھولے، لہٰذا 2010 میں ان کی بلتی نعتیہ شاعری ’ستودکھہ‘ کے نام سے منظر عام پر آئی جسے حکومت پاکستان نے ایوارڑ سے نوازا۔

یہی تک ان کا ادبی سفر رہتا تو بھی ان کا قد و کاٹھ بلند رہتا لیکن خوش گوار حیرت اس بات پر ہوئی کہ ان کی پوٹھوہاری اور پنجابی غزلیں بھی ’پچھوا‘ 2010 میں اور ’تارا سرگی‘ 2011 میں منصہ شہود پر آئیں۔

یہ گلگت بلتستان کے کسی فرد کی ان زبانوں میں کی گئی شاعری کی واحد مثال ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ انہیں اردو کے علاؤہ دوسری زبانوں پر بھی کمال دسترس حاصل ہے تب کہیں جا کر شعر و سخن کے یہ پھول کھلے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قمر صاحب دوران ملازمت پی ٹی وی سنٹر کوئٹہ، لاہور، پشاور اور اسلام آباد میں رہے ہیں اس دوران انہوں نے بلتستان کی مشہور لوک کہانی ’بونو مریم‘ کو اردو قالب میں ڈھالا جسے پی ٹی وی سنٹر پشاور نے نشر کیا۔

ان کے پہلے شعری مجموعہ کے حوالے سے فدا محمد ناشاد صاحب نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’حسین آباد سکردو میں منعقدہ محافل ’یوم حسین‘ میں پڑھے گئے شعرا کا کلام جو غالباً 1973 سے 1975 تک کا تھا اسے ’گلہائے عقیدت‘ کے نام سےچھاپنے کے لیے وہ ایس ٹی پرنٹر راولپنڈی میں موجود تھے۔

 یہ 1976 کی بات ہے تب وہیں پر علی احمد قمر سے ملاقات ہوئی۔ ایس ٹی پرنٹر نے علی احمد قمر کا مجموعہ ’زخم گل‘ شائع کیا تھا۔ اسی پرنٹر کے دفتر میں ناشاد صاحب نے "گلہائے عقیدت" علی احمد قمر کو گفٹ کیا جبکہ قمر صاحب نے ’زخم گل‘ ناشاد صاحب کو پیش کیا۔

ناشاد صاحب کا یہ کہنا تھا کہ علی احمد قمر نے بھی اپنے حافظے کو ٹٹولا۔ ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوتے ہوئے واقعات میں سے ایک کی ڈور کا سرا پکڑا اور پرجوش انداز میں بتانے لگے کہ جب وہ ملازمت کی ضرورت کے لیے ڈومیسائل بنانے نوجوانی کے دنوں محکمہ مال سکردو پہنچے تو یہ فدا محمد ناشاد تھے جنہوں نے انہیں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔

علی احمد قمر کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس سرٹیفکیٹ کی کاپی اب بھی موجود ہے۔ فدا محمد ناشاد صاحب ان دنوں وہاں ملازم تھے۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ ان کے فن اور شخصیت پر سدپارہ سکردو کے محمد یوسف سدپارہ نے وفاقی اردو یونیورسٹی میں ایم فل سطح کا مقالہ لکھا ہے۔

ان کا یہ شعر دراصل ان کی شخصیت کے بھرپور سراپا کا واضح عکس ہے:

جہاں چپ سادھ لیتا ہے زمانہ
قمر ہم ہیں کہ کھل کر بولتے ہیں

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ