’تاریخ جموں و کشمیر و اقصہائے تبت‘: لکھنؤ سے بلتستان پہچنے کی داستان

مولوی حشمت اللہ خان کی کتاب ’مختصر تاریخ جموں و کشمیر اور اقصہائے تب‘ غالباً 1939 میں لکھنؤ میں چھپی تھی، جس میں جموں و کشمیر، کشتواڑ، کارگل لداخ اور گلگت بلتستان کی تاریخ مرتب کی گئی ہے۔

تاریخ جموں و کشمیر کے مصنف حشمت اللہ خان لکھنؤی کی تصویر جو اس کتاب میں شائع ہوئی (عاشق فراز)

گلاب سنگھ کس طرح جموں سے پنجاب کے حاکم اعلیٰ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار پہنچے اور کس طریقے سے انہوں نے دربار میں اپنا نام اور اثرورسوخ حاصل کیا وہ ایک الگ دلچسپ کہانی ہے۔

اسی طرح انگریزوں اور سکھوں کی لڑائی اور بعد ازاں تاوانِ جنگ کے عوض دیا گیا کشمیر کا علاقہ کس طرح گلاب سنگھ نے خریدا اور مہاراجہ بنے، یہ بھی تاریخ کا بھیانک باب ہے۔

اسی گلاب سنگھ کے وزیر زورآور سنگھ کلہوڑیا اور وزیر لکھپت رائے اور کرنل نتھو شاہ کے ہاتھوں لداخ اور گلگت بلتستان کس طرح جموں سرکار کے قبضے میں چلا گیا، وہ ایک الگ داستان ہے۔

میرا مطمع نظر ان سب کو دہرانا نہیں بلکہ اسی ڈوگرہ حکومت کے ایک مہتمم یعنی وزیر وزارت مولوی حشمت اللہ خان لکھنؤی کی ایک عمدہ عملی و تحقیقی کاوش کا تذکرہ مقصود ہے، جو گلگت بلتستان کی تاریخ کا بنیادی ماخذ ہے۔

غالباً 1939 میں مولوی حشمت اللہ خان کی کتاب ’مختصر تاریخ جموں و کشمیر اور اقصہائے تب‘ لکھنؤ میں چھپی، جس میں جموں و کشمیر، کشتواڑ، کارگل لداخ اور گلگت بلتستان کی تاریخ مرتب کی گئی ہے۔

گو کہ صاحب کتاب ڈوگرہ حکومت کے کارپرداز رہے تھے لہذا ان کی اس تحریر کا بنیادی مقصد بقول مصنف سرکار کی فتوحات اور عظمت کا تذکرہ کرنا ہے، لیکن ڈوگرہ حکومت کے سیاسی اور توسیعی مقاصد سے ہٹ کر اس میں جو تاریخ مرتب کی گئی ہے وہ گلگت بلتستان کی تاریخ کے حوالے سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

گلگت بلتستان اور لداخ کو ڈوگرہ دور حکومت میں مختلف انتظامی تقسیم کے تحت رکھا گیا تھا۔ بلتستان میں شروع شروع میں کاردار تعینات کیا گیا، بعد ازاں وزیر وزارت کا عہدہ دار بطور منتظم کام کرتا رہا۔ اس وزارت میں کارگل اور لداخ بھی شامل تھے۔

مولوی حشمت اللہ خان لکھنؤی سرکار انگلیشہ ہند کی محکمہ خارجہ کے تحت 1894 میں گلگت اور 1895 میں چترال میں تعینات رہے۔ 1898 میں ریاست جموں و کشمیر کی ملازمت میں داخل ہوئے اور گلگت، مظفر آباد، راجوڑی، کارگل، لداخ اور بلتستان میں خدمات سر انجام دیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ وزیر وزارت رہے اور انہوں نے اسی دوران اس کتاب کا مواد اکٹھا کرنے کے لیے شب و روز محنت کی، جس کی تفصیل انہوں نے کتاب کے دیباچے میں دی ہے۔ اس ملازمت کے دوران وہ ریاست جموں و کشمیر کے چپے چپے سے نہ صرف واقف ہوئے بلکہ تاریخ و ثقافت میں نہایت دلچسپی لی، لہذا 1928 میں ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد کتاب مرتب کرنے کا کام شروع کیا، جو 1939 میں شائع ہوئی۔

کتاب کے مندرجات اور اس کی اہمیت پر بحث سے پہلے اس بات کا تذکرہ نہایت دلچسپ اور اہم ہے کہ یہ کتاب کس طرح یہاں بلتستان پہنچی۔ کتاب کے دیباچے کے آخر میں جگہ کا نام علی گڑھ درج ہے، جس سے لگتا ہے کہ مولوی حشمت اللہ خان ریٹائرمنٹ کے بعد شاید وہیں رہائش پذیر تھے۔

اب ذرا لکھنؤ سے واپس کھرمنگ سکردو چلتے ہیں، جہاں کے موضع پاری سے ایک شخص بغرض تحصیل علم لکھنؤ جا پہنچتا ہے اور وہاں ایک ردی کی دکان سے اسے یہ متذکرہ کتاب ’تاریخ جموں‘ ملتی ہے۔ یہ کہانی اتنی سیدھی سادی نہیں ہے کہ بندہ  آرام سے لکھنؤ گیا، تعلیم حاصل کی اور آخر میں یہ تاریخی کتاب بغل میں دابے واپس سکردو آگیا۔ ایسا نہیں ہے۔

علی ممتاز کا تعلق کھرمنگ کے گاؤں پاری سے تھا۔ یہ گاؤں بڑا مردم خیز رہا ہے، جہاں کی کئی شخصیات نے گلگت بلتستان میں بڑا نام کمایا ہے۔ اسی گاؤں کے سیب جو ’سسپولو‘ کہلاتے ہیں، پاکستان بھر میں ذائقے اور خوشبو کی وجہ سے مشہور ہیں۔ اسی پاری گاؤں میں علی ممتاز کی پیدائش ہوئی۔

شیخ علی ممتاز کے لکھنؤ جانے اور وہاں سے ’تاریخ جموں و کشمیر و اقصہائے تبت‘ کتاب لانے کا قصہ مجھے محمد علی صاحب نے سنایا، جو محمد علی پی آئی اے کے نام سے زیادہ مشہور ہیں۔ وہ اس لیے کہ ان کی پی آئی اے میں نوکری تھی۔ محمد علی صاحب نے بتایا کہ وہ اور بلتستان کے ممتاز مورخ یوسف حسین آبادی کئی سال پہلے شیخ علی ممتاز سے ملنے شگر گئے اور وجہ تھی وہی تاریخ جموں والی کتاب، کیونکہ سنا تھا کہ شیخ صاحب کے پاس اس کا پہلا ایڈیشن ہے، جو 1939 میں لکھنؤ سے چھپا تھا اور مفقود تھا۔ گو کہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن لاہور، تیسرا اور چوتھا ویری ناگ پبلشرز آزاد کشمیر نے چھاپا ہے، لیکن بعد کے ایڈیشنز میں اتنی خوب صورتی نہیں۔ نیز اس میں وہ ہاتھ سے بنی ہوئی تصاویر بھی شامل نہیں، جو پہلی اشاعت میں تھیں۔ یوسف صاحب نے اس پہلے ایڈیشن کی فوٹو کاپی کروائی اور اصل نسخہ شیخ صاحب کو واپس کر دیا۔

شیخ علی ممتاز کی کھرمنگ بلتستان سے لکھنؤ جانے اور تعلیم کے حصول کے لیے اٹھائی گئی مشقت کی کہانی بہت دلچسپ ہے، جو کچھ یوں ہے۔

علی ممتاز کو مذہبی تعلیم پڑھنے کا شوق چرایا لیکن گاؤں میں کوئی تعلیمی سہولت تو تھی نہیں لہذا پھرتے پھراتے سکردو پہنچے، وہاں کسی نے صلاح دی کہ راولپنڈی جاؤ تاکہ کچھ ڈھنگ کا پڑھ سکو۔ اب ان دنوں پنڈی جانا کوئی عام کھیل تو تھا نہیں کہ لاری میں بیٹھو اور ہارن بجاتے وہاں جا کر اترو۔ ان دنوں دیوسائی سے برزل پاس وہاں سے منی مرگ، قمری ٹاپ، آزاد کشمیر اور پھر راولپنڈی مگر سارا راستہ پیدل چلنا پڑتا تھا، جس میں علی ممتاز کو ایک ماہ لگا۔

لیکن علی ممتاز کو وہاں بھی تسلی نہیں ہوئی۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ میاں اتنا شوق ہے تو لکھنؤ کی راہ کیوں نہیں لیتے ہو۔ یہاں کیوں خجل پڑے ہو؟ یہ مشورہ سیدھے ان کے دل کو لگا۔ مگر لکھنؤ جانا جوئے شیر لانے سے بھی زیادہ مشکل کام تھا۔

علی ممتاز واپس پیدل بلتستان آئے، کچھ دن صبر کیا۔ پھر اگلے سال چند مال مویشی بیچ کر طویل سفر اختیار کیا یعنی کھرمنگ سے کارگل، لداخ، کشمیر پھر بانہال درہ عبور کرکے جموں، وہاں سے امرتسر کے رستے پھر لکھنؤ کی راہ لی۔ یہ سارا راستہ انہوں نے پیدل طے کیا۔ کہاں پاری کھرمنگ کا پہاڑی پس ماندہ گاؤں اور کہاں لکھنؤ جو ہندوستان کی تہذیب وثقافت کا آئینہ تھا۔ انہیں دن رات خواب کی طرح لگ رہے تھے۔

گو کہ نواب واجد علی شاہ کا لکھنؤ نہیں رہا تھا مگر اب بھی ان کی خو بو نرالی تھی اور زبان و ادب کی حلاوت اور علم کی روشنی کچھ کم نہیں ہوئی تھی۔

انہوں نے لکھنؤ میں سات سال گزارے، فاضل علوم الشریعہ کیا اور بعد میں محکمہ تعلیم بلتستان میں ملازم ہو گئے۔ یہ الگ کہانی ہے۔

دوران تعلیم چونکہ خود کھانا پکانا پڑتا تھا لہذا کریانہ والے، تندور والے اور دودھ والے سب سے سلام دعا تھی۔ کریانہ کی دکان سے وہ شکر، نمک، چائے وغیرہ جب خریدتے تو یہ اشیا کاغذ یا اخبار میں لپٹ کر دی جاتی تھیں۔ اب ان کو عادت سی ہو گئی تھی کہ کمرے میں پہنچ کر وہ چائے شکر وغیرہ شیشے کے مرتبان میں ڈالتے اور پھر فوراً ردی کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھتے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔

ایک دن جب انہوں نے حسب عادت کاغذ کو دیکھا تو آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ بے یقینی کی کیفیت میں بار بار پڑھتے گئے لیکن پھر بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔ الفاظ ان کی آنکھوں کے سامنے جھلملاتے رہے، ان کے چشم تصور میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ لکھنؤ میں ردی کے کسی کاغذ پر انہیں سکردو بلتستان کے بارے میں کچھ لکھا ہوا پڑھنے کو ملے گا مگر یہ معجزہ تو ہوا تھا۔ انہوں نے کاغذ کو الٹ پلٹ کر دیکھا تو لگا کہ یہ کسی کتاب سے پھاڑ کر نکالا گیا ہے۔ ان کے دماغ میں بجلی سی کوند گئی خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہ تو کوئی کتاب ہو گی، جو بلتستان سے متعلق ہے۔

وہ چائے بنانا ادھورا چھوڑ کر کریانے والی دکان کی طرف دوڑ پڑے، جو پاس والی گلی میں تھی۔ دکاندار کے سامنے کاغذ لہرایا اور سانس لیے بغیر پوچھا کہ یہ کاغذ کہاں سے آیا۔ دکاندار نے ان کی بے تابی دیکھ کر فوراً ردی والے کی دکان کا پتہ دیا جو ایک گلی چھوڑ کر دوسری کے نکڑ پر تھی۔

ردی کی دکان کے ہر طاقچے پر کاغذ ہی کاغذ تھے مگر سلیقے سے ترتیب میں تھے۔ خاکستری لفافے، اخبارات کے تراشے، میگزین، رسالوں کے بنڈل جو سوتر دھاگے سے بندھے ہوئے تھے، جلد والی کتابوں سے الگ کیے گئے صفحات کے پلندے غرض کاغذوں اور لفافوں کی ایک دنیا تھی۔ دروازے کے ساتھ  ترازو اور باٹ جس میں یہ ردی کاغذ تولے جاتے اور فروخت ہوتے تھے۔

علی ممتاز نے مڑا تڑا کتاب کا صفحہ دکھایا اور تکرار کر کے پوچھا کہ یہ کاغذ والی کتاب چاہیے، نیز کریانہ والے کا حوالہ دیا جس نے یہ ردی آج خریدی تھی۔

ردی والے نے دکان کے ساتھ جڑے ہوئے سٹور کا رخ کیا اور کچھ کتابیں لے کر واپس لوٹا جن میں سے چند تو نہایت شکستہ اور شیرازہ بندی سے محروم تھیں، مگر ایک کتاب درست حالت میں تھی اور وہ تھی ’مختصر تاریخ جموں وکشمیر و اقصہائے تبت۔‘

علی ممتاز کو مذہبی تعلیم پڑھنے کا شوق چرایا لیکن گاؤں میں کوئی تعلیمی سہولت تو تھی نہیں لہذا پھرتے پھراتے سکردو پہنچے، وہاں کسی نے صلاح دی کہ راولپنڈی جاؤ تاکہ کچھ ڈھنگ کا پڑھ سکو۔ اب ان دنوں پنڈی جانا کوئی عام کھیل تو تھا نہیں کہ لاری میں بیٹھو اور ہارن بجاتے وہاں جا کر اترو۔

علی ممتاز نے بے تابی سے اس کے ورق پلٹے اور فہرست پر نظر ڈالی تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس میں سکردو، خپلو، روندو، شنگو، شغر اور شگر کی قدیم تاریخ کے ساتھ ساتھ 1840 میں ان علاقوں کے ڈوگروں کے قبضے تک چلے جانے کی پوری داستان موجود تھی۔ انہوں نے دیکھا کہ نہ صرف بلتستان بلکہ اس کتاب میں کارگل، لداخ، دردستان، کشتواڑ سے لے کر جموں سرکار تک کی جامع تاریخ اور ہاتھ کی بنی تصاویر بھی تھیں۔

علی ممتاز نے ردی والے کو بتایا کہ اس کتاب میں ان کے علاقے کی تاریخ لکھی گئی ہے اور یہ ان کے لیے کتنی اہم ہے۔ ممتاز نے قیمت پوچھی تو اسے سن کر کانوں کو یقین نہیں آیا کیونکہ وہ 16 روپے مانگ رہا تھا۔ اتنی رقم تو ان کے تین ماہ کے اخراجات سے بھی زیادہ تھی۔

ممتاز نے منطقی انداز میں اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ تو یہ سب ردی کے بھاؤ بیچ رہا ہے جس میں یہ کتاب بھی شامل ہے۔ نیز انہوں نے مثال دی کہ کریانے والے نے آج ہی یہ کتاب سمیت ردی بہت معمولی رقم میں خریدی ہے، پھر یہ تضاد کس لیے۔

ردی والا بے ساختہ ہنس پڑا اور گویا ہوا کہ واقعتاً میں سب کچھ ردی کے مول بیچتا ہوں کیونکہ گاہک کے لیے ان کاغذات کی کوئی اہمیت نہیں، بس ان کا مطمع نظر صرف اپنا سامان ان کاغذوں میں لپیٹ کر دینا ہے۔ ایک لمحے کے لیے وہ رکا اور پھر خاموشی توڑتے ہوئے بولا: ’چونکہ تمہارا کتابوں سے شغف لگتا ہے اوپر سے یہ کتاب بھی تمہارے علاقے کی ہے یعنی تم اس کے صحیح سٹیک ہولڈر ہو، لہذا قیمت تو بنتی ہے۔‘

غرض کچھ تکرار کے بعد علی ممتاز نے تاریخ جموں اس وقت کے 14 روپے میں خریدی اور پھر جب وہ تعلیم مکمل کر کے واپس سکردو لوٹے تو ساتھ لے آئے۔

اس طرح یہ کتاب بلتستان پہنچی، پھر بعد ازاں ویری ناگ پبلشرز نے بھی اسے متعدد بار چھاپا، جبکہ لوک ورثہ اسلام آباد نے بلتستان سے متعلق کچھ ابواب انگریزی میں ترجمہ کر کے 1987 میں شائع کیے۔

محمد علی صاحب کے بقول مولوی حشمت اللہ خان لکھنؤی نے کتاب کی تین کاپیاں بلتستان بھیج دی تھیں۔ ایک راجہ سکردو کے لیے، دوسری آغا احمد علی شاہ اور تیسری وزیر غلام مہدی کے لیے اور یہ نسخے اب بھی شاید ان کے خانوادوں کے پاس ہو۔

علی ممتاز شیخ کہلائے اور محکمہ تعلیم میں کئی سال خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائر ہوئے اور پھر اس دارفانی سے رخصت ہو گئے۔ ممتاز نے چونکہ لکھنؤ سے تعلیم حاصل کی تھی نیز بلتستان کے علمی و ادبی ورثہ کے بھی امین تھے۔ انہوں نے بلتی میں تھوڑا کچھ لکھا، جن میں سے کئی تحریریں اب نایاب ہیں۔

ان کی ایک مثنوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں 740 اشعار کے بند موجود ہیں۔ انہوں نے قرآن مجید کا بلتی میں ترجمہ کیا لیکن منصہ شہود پر نہیں آسکا۔ سنا ہے ان کی خوش خطی اور ڈرائنگ بھی مقبول تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ