گلگت بلتستان کے مسائل

مقامی حکومت اور اسلام آباد کا فرض بنتا ہے کہ وہ جلد از جلد لوگوں کے مسائل کا حل نکالے اور انہیں ریلیف دے۔

گلگت بلتستان کے مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ مسائل سے متعلق حکومت کو عرضیاں ڈال ڈال کر تھک گئے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی (اے ایف پی فائل فوٹو)

حال ہی میں ایک ویڈیو انٹرویو دیکھنے کا موقع ملا جو پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان سے ایک خاتون کا تھا۔

خاتون نے بہت شگفتہ اور عمدہ انداز میں بتایا کہ مقامی والوں کو کن مسائل کا سامنا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ کس طرح ایک طرف ان علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر اور مرمت پر توجہ دی جا رہی ہے، جو سیاحت کے لیے بہت اہم ہیں۔

سیاحت کے فروغ کے لیے کام کرنے سے کوئی منع نہیں کر رہا اور نہ ہی کر سکتا ہے کیونکہ اس سے روزگار کے مواقع ملتے ہیں۔

تاہم عام شہریوں کا بھی تو خیال رکھا جائے۔ جن سڑکوں پر عام لوگ سفر کرتے ہیں وہ آہستہ آہستہ غائب ہوتی جا رہی ہیں۔  اس کے علاوہ ڈاکٹروں کا فقدان ہے۔ ہنزہ میں ٹریفک کے حادثات میں اضافہ ہوا لیکن علاج کے لیے ڈاکٹر نہیں۔

خاتون کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری دورہ ہو یا اسلام آباد سے کوئی اہم شخصیت آئی ہو، سڑکیں ٹھیک کر دی جاتی ہیں کہ ایک دو دن نکال لیں اور ان کے لیے ڈسپنسری کا انتظام کر لیا جاتا ہے جو عوام کے لیے عام دنوں میں میسر نہیں۔

ان کا ایک اور شکوہ تھا اور وہ یہ کہ اسلام آباد سے آنے والے اعلیٰ عہدے داروں کے دورے کے دوران علاقے کے رہائشیوں کو علاقے میں جانے سے روک دیا جاتا ہے اور

کہا جاتا ہے کہ کارڈ بنوا کر لاؤ کیونکہ فلاں عہدے دار نے علاقے کا دورہ کرنا ہے۔ کیوں بھئی سالوں سے اس علاقے کے رہائشی ہیں کیوں کارڈ بنوانے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔

یہ تو ایک شکوہ ہے جس کو میں نے یہاں بیان کیا لیکن ایسے کئی شکوے سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ ایسا ہی ایک شکوہ گلگت بلتستان کے آخری گاؤں فرانو میں حالیہ دنوں میں کیا گیا جہاں پر لوگوں نے بجلی کی عدم دستیابی، گندم کی کمی، سڑکوں کی خستہ حالت اور تعلیمی اداروں کی کمی کے حوالے سے احتجاج کیا۔

احتجاج میں مقامی آبادی کا کہنا تھا کہ حکومت کو عرضیاں ڈال ڈال کر تھک گئے ہیں لیکن وہاں کوئی شنوائی نہیں ہوئی تو فوج کے دروازے پر دستک دی لیکن وہاں سے بھی کوئی جواب نہیں ملا۔

ستم ظریفی یہ کہ ایسے مظاہرے سخت گیر موقف رکھنے والے ہندوستانیوں کے لیے سنہرا موقع ہوتا ہے کہ وہ اس کو مزید بڑھا چڑھا کر پیش کریں۔

ایک ہندوستانی نے اس مظاہرے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ لوگ جو فرانو یعنی آخری گاؤں کے مقیم ہیں سرحد پار اعلیٰ سہولیات کو دیکھتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں۔

اس قسم کے بہت سے مظاہرے گلگت بلتستان کی عوام کر رہے ہیں اور وہ صرف اور صرف اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم ایک طرف ان کی آواز گلگت کے حکام کے کانوں تک پہنچ کر بھی ان سنی ہو جاتی ہے تو دوسری جانب انڈین پروپیگنڈا اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں ایسے موقعوں کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔

یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ گلگت بلتستان کے حکام بجلی، تعلیم اور دیگر مشکلات کو حل کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ حال ہی میں گلگت بلتستان میں جدید سکولوں کی رونمائی ہوئی جن میں جدید طریقے سے طلبہ کو تعلیم دی جائے گی۔

لیکن گلگت بلتستان بھر میں چند جگہوں کو چھوڑ کر لوگ بجلی کے بحران سے شدید متاثر ہیں۔ موسم بہار کی آمد اور برف پگھلنے کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ بجلی کی پیداوار بڑھے گی۔

تاہم مئی کے تیسرے ہفتے میں بھی گرمیوں کی آمد کے بعد سکردو اور گلگت جیسے بڑے شہر 20 سے 22 گھنٹے تک روزانہ لوڈشیڈنگ کا شکار ہیں۔

گلگت بلتستان کی حکومت کا فرض بنتا ہے کہ لوگوں کے مسائل کا حل جلد سے جلد نکالیں اور انہیں ریلیف دیں۔

اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کا فرض بنتا ہے کہ یہاں کے شہریوں کو دوسرے درجے کا شہری نہ سمجھیں اور مقامی حکومت کے ساتھ مل کر ان مسائل کا دیرپا حل نکالیں تاکہ عوام کو ریلیف پہنچے۔

یہ بات صحیح ہے کہ اس میں وقت درکار ہوتا ہے لیکن کچھ اقدامات ایسے بھی ہیں جن میں وقت سے زیادہ قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات