کیا ہم موسم سرما میں ’ال نینیو‘ کے لیے تیار ہیں؟

سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ موسمی تبدیلی اور ال نینیو مل کر دنیا کے کئی خطوں پر اس طرح اثر انداز ہو گا جو پہلے نہیں دیکھا گیا۔

تین اگست، 2015 کو عطا آباد جھیل کی تصویر۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام پاکستان کے مطابق گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں 3044 گلیشیئر جھیلیں بن چکی ہیں جن سے 71 لاکھ افراد کو خطرہ لاحق ہے (اے ایف پی)

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق رواں سال اپریل سے جون تک بارشیں معمول سے کچھ زیادہ ہوں گی۔

پنجاب کے شمالی علاقے، زیادہ تر خیبر پختونخوا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں زیادہ بارشیں ہونے کے امکانات ہیں۔

محکمے کا مزید کہنا ہے کہ صاف آسمان کے دنوں میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گا اور درجہ حرارت معمول سے زیادہ ہوں گے۔

خاص طور پر گلگت بلتستان میں جس کے نتیجے میں گلیشیئر جھیل بننے اور پانی بے قابو ہو کے پھٹنے کا خدشہ ہے۔

نیچر کلائمیٹ چینج نامی جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق میں کہا گیا تھا کہ موسمی تبدیلی نے گلیشیئر جھیل کے پھٹنے کے واقعات میں بہت حد تک اضافہ کر دیا ہے اور ان گلیشیئر جھیلوں کی وجہ سے پاکستان میں 70 لاکھ افراد کو خطرہ لاحق ہے۔

گذشتہ 30 برس میں گلیشیئر جھیل پھٹنے کے واقعات میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

قطب شمالی اور جنوبی کو چھوڑ کر پاکستان میں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ گلیشیئر ہیں، جن کی تعداد سات ہزار ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام کے ایک اندازے کے مطابق ہندو کش ہمالیہ میں تین ہزار گلیشیئر جھیلیں بنیں، جن میں سے 33 جھیلوں سے شدید خطرہ لاحق ہے اور 70 لاکھ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔

جنوری 2020 میں رائل میٹرولوجیکل سوسائٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ انڈیا میں درکٹ گلیشیئر جھیل کی سطح میں گذشتہ دو دہائیوں میں 240 فیصد اضافہ ہوا۔ 

دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام پاکستان کے مطابق گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں 3044 گلیشیئر جھیلیں بن چکی ہیں جن سے 71 لاکھ افراد کو خطرہ لاحق ہے۔  

لیکن زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند برس میں بحر الکاہل پر ’لا نینیا‘ کے ہوتے ہوئے سمندر کے پانی کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ لا نینیا وہ موسمی رجحان ہے جو موسم پر ٹھنڈک کے اثرات مرتب کرتا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ چار سال سے سمندروں کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اور مارچ کے وسط میں عالمی سمندری سطح کا درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔

لیکن سائنس دان صرف اس بات سے پریشان نہیں بلکہ وہ پریشان ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا ہو گا جب موسم سرما میں ’ال نینیو‘ عالمی سطح پر موسم پر اثر انداز ہو گا۔

ال نینیو وہ موسمی رجحان ہے جو موسم میں گرمی پیدا کرتا ہے اور سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ال نینیو کے باعث شدید گرمی، خطرناک سائیکلون وغیرہ آ سکتے ہیں۔

برطانوی محکمہ موسمیات کے پروفیسر ایڈم سکیف کا کہنا ہے کہ لا نینیا کے ہوتے ہوئے بھی گذشتہ تین سالوں میں گرمی کی شدت نے ریکارڈ توڑے ہیں۔

ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق اکیسویں صدی کا پہلا ’ٹرپل ڈپ‘ لا نینیا گذشتہ تین سال سے اثر انداز ہے اور 55 فیصد امکانات ہیں کہ اپریل میں نہ تو لانینیا ہو گا اور نہ ہی ال نینیو۔

1950 سے یہ تیسری بار ہے کہ ’ٹرپل ڈپ‘ لا نینیا اثر انداز ہو رہا ہے۔

تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس وقت یہ معلوم نہیں کہ موسم سرما میں آنے والا ال نینیو کتنا طاقت ور ہو گا اور اس سے عالمی موسم کتنا متاثر ہو گا۔ لیکن چند امکانات جو ظاہر کیے گئے ہیں وہ ملے جلے ہیں۔

چند سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ال نینیو شدید طاقت ور ہو گا لیکن کچھ محققین کا کہنا ہے کہ یہ درمیانے درجے کا ہو گا۔

جس بات پر سائنس دانوں کا اتفاق ہے وہ یہ کہ انسانی سرگرمیوں کے باعث موسمی تبدیلی اور ال نینیو مل کر دنیا کے کئی خطوں پر اس طرح اثر انداز ہو گا جو پہلے نہیں دیکھا گیا۔

امریکی نیشنل اوشنک اینڈ ایٹموسفرک ایڈمنسٹریشن میں سینیئر تحقیق دان ڈاکٹر مائیک میک فیڈن کا کہنا ہے کہ اگر تاریخ کو دیکھا جائے تو ال نینیو ہر چار یا پانچ سال بعد آتا ہے اور وقت ہے کہ اب ال نینیو آئے۔

تاہم ایسا ال نینیو جو بہت شدت کا ہو ہر سال 10 سے 15 سال بعد آتا ہے۔

’یہ بہت حیرت کی بات ہو گی کہ اگر اس سال آنے والا ال نینیو بہت زیادہ شدت کا ہو کیونکہ آخری بار شدت والا ال نینیو 2015 اور 2015 میں آیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

موسمی تبدیلی بوتل کے جن کی مانند ہے کہ ایک بار باہر آ گیا تو واپس بوتل میں نہیں ڈالا جا سکتا۔

دنیا میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور موسمی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔

چند ہی دہائیوں قبل جس دنیا میں ہم رہ رہے تھے اور اس وقت ہم اس سے کافی مختلف دنیا میں رہ رہے ہیں۔

موسمی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہونے میں سالوں لگ جاتے ہیں اور ایک بار جب یہ اثرات نمایاں ہونے شروع ہو جائیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ دیر ہو چکی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس وقت زیادہ نہیں۔ ہمارے پاس ٹیکنالوجی بھی ہے اور سائنس بھی۔

مسئلہ سائنس کے نہ ہونے کا نہیں بلکہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قوت ارادی کی کمی ہے۔

پاکستان کے پاس آپشن ہے کہ آیا وہ اپنے وجود میں آنے کے سو سال بعد موسمی تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے ماحول دوست اقدامات اٹھا کر معاشی کامیابی کی مثال بننا چاہتا ہے یا نہیں۔

ہمارا سیارہ 20 سال پہلے والا نہیں رہا اور موسمی تبدیلی کے باعث اس میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں۔

آج کل کے شدید موسمی واقعات کو دیکھیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ موسمی تبدیلی کے باعث دنیا میں تبدیلی آ رہی ہے اور اس کا اثر مستقبل میں کیا ہو گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ