ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے پیر کو نشر کیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اسرائیل نے ان کی جان لینے کی کوشش کی تھی۔
انہوں نے امریکی اینکر و تجزیہ کار ٹکر کارلسن کے اس سوال کہ ’کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل نے انہیں قتل کرنے کی کوشش کی؟‘ کے جواب میں کہا: ’جی ہاں، انہوں نے کوشش کی۔ انہوں نے اس کے لیے اقدام کیا، لیکن وہ ناکام رہے۔‘
مسعود پزشکیان نے مزید کہا کہ ’یہ امریکہ نہیں تھا، جو میرے قتل کی کوشش کے پیچھے تھا، بلکہ اسرائیل تھا۔ میں ایک اجلاس میں موجود تھا۔۔۔ انہوں نے اس علاقے کو بمباری کا نشانہ بنانے کی کوشش کی، جہاں ہم اجلاس کر رہے تھے۔‘
فارسی سے ترجمہ شدہ اپنے بیان میں انہوں نے یہ بات کہی، جو بظاہر حالیہ جنگ کے دوران مبینہ قاتلانہ حملے کا حوالہ تھا۔
13 جون سے اسرائیل نے ایران پر حملے کیے، جو 12 روز تک جاری رہے، جس کے دوران اعلیٰ ایرانی فوجی کمانڈر اور ایٹمی سائنس دانوں سمیت سینکڑوں عام شہریوں کی اموات ہوئیں جبکہ تہران کے جوابی حملوں کے نتیجے میں اسرائیل میں بڑا مالی و جانی نقصان ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ اسرائیلی حملے اس وقت کیے گئے جب تہران اور واشنگٹن 12 اپریل کو شروع ہونے والے نئے جوہری مذاکرات کے ایک اور مرحلے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔
ایرانی عدلیہ کے مطابق اس تنازعے کے دوران ایران میں 900 سے زائد افراد جان سے گئے۔
ان اسرائیلی حملوں کے جواب میں ایران کی جانب سے کئی بار ڈرون اور میزائل حملے کیے گئے جن میں اسرائیلی حکام کے مطابق 28 افراد مارے گئے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان اس 12 روزہ جنگ کے دوران امریکہ نے بھی حصہ لیا اور فردو، اصفہان اور نطنز میں ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کیے۔
ٹکر کارلسن کو انٹرویو کے دوران پزشکیان نے کہا کہ اگر جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کیے جائیں تو ان کے ملک کو ’کوئی مسئلہ نہیں‘ بشرطیکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد بحال ہو سکے۔
ایرانی صدر نے کہا: ’ہمیں مذاکرات دوبارہ شروع کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن ایک شرط ہے، ان مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے اعتماد کی ضرورت ہے۔ ہم کیسے یقین کریں کہ مذاکرات کے درمیان اسرائیلی حکومت کو دوبارہ حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی؟‘
ایرانی صدر کا یہ انٹرویو ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے حالیہ 12 روزہ جنگ کے دوران عوامی مقامات سے دور رہ کر خفیہ مقام پر موجودگی اختیار کی تھی۔ ان کی غیر معمولی رہائش نے سلامتی خدشات کو جنم دیا تھا۔
13 جون کے بعد خامنہ ای نے عوامی تقریبات کو فروغ دینے کی روایت توڑتے ہوئے گمنامی اختیار کی۔ اُن کا آخری براہ راست عوامی خطاب 11 جون کو ہوا تھا۔
اس دوران وہ فقط تین پیشگی ریکارڈ شدہ بیانات میں دکھائی دیے اور میڈیا بیانات یا ویڈیوز میں ہی دیکھے گئے۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق وہ ممکنہ طور پر تہران کے نواح میں واقع حفاظتی بنکر (ممکنہ طور پر لاویزیان) میں تھے۔
اسرائیلی وزیر دفاع کے مطابق انہیں ’نشانہ بنانا‘ چاہا لیکن خامنہ ای کی پوشیدہ رہائش نے کسی ممکنہ حملے کو ناممکن بنا دیا۔
تاہم گذشتہ روز ایرانی رہبر اعلیٰ یوم عاشور کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب میں منظر عام پر آئے، جہاں انہوں نے شرکا کے نعروں کا ہاتھ ہلا کر جواب دیا۔
13 جون کے بعد ایرانی رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی یہ پہلی عوامی رونمائی تھی۔