جھیلیں غائب ہو رہی ہیں

ایک تحقیق کے مطابق موسمی تبدیلی اور پانی کا رخ موڑنے سے دنیا بھر میں جھیلیں نہ صرف سکڑ رہی ہیں بلکہ درجنوں جھیلیں سرے سے غائب ہو گئی ہیں۔

نو جون 2022 کو لی گئی اس تصویر میں گلگت بلتستان کے حسن آباد گاؤں میں مقامی لوگ اور سیاح ایک عارضی پل پر گاڑی چلا رہے ہیں جب کہ گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے مرکزی پل بہہ گیا تھا (اے ایف پی)

ایک تازہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ موسمی تبدیلی اور انسانوں کی جانب سے پانی کا رخ موڑنے کے باعث دنیا بھر میں جھیلیں سکڑ رہی ہیں اور کئی ممالک میں درجنوں جھیلیں سرے سے ہی غائب ہو گئی ہیں۔

تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ نوے کی دہائی سے جھیلوں کے سکڑنے یا ختم ہونے کے باعث ہر سال اربوں لیٹر پانی کم ہو رہا ہے۔

تحقیق کے دوران دنیا بھر میں دو ہزار جھیلوں کا معائنہ کیا گیا اور اس سے یہ بات سامنے آئی کہ سالانہ 21.5 کھرب لیٹر پانی کم ہو رہا ہے۔

سائنس جریدے میں چھپنے والی تحقیق میں کہا گیا کہ جن علاقوں میں بارش زیادہ ہو رہی ہے، وہاں بھی جھیلوں میں پانی کم ہو رہا ہے کیونکہ موسمی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے اور زیادہ گرمی سے زیادہ پانی بخارات بن رہا ہے۔

دوسری جانب انسان نے بھی کسر نہیں چھوڑی اور جھیلوں کے پانی کو زراعت، بجلی گھروں اور پینے کے پانی کے ذخائر کی جانب موڑ رہے ہیں۔

تحقیق میں کہا گیا کہ ایران میں باقع ارمیا جھیل سے ہر سال ایک کھرب لیٹر پانی کم ہو رہا ہے۔

پاکستان میں تمام ویٹ لینڈز یعنی پانی کے ذخائر کو موسمی تبدیلی، سیلاب یا خشک سالی، پانی کی طلب میں اضافے اور بدانتظامی کے باعث کم یا بےقاعدہ پانی کی صورت حال کا سامنا ہے۔

پاکستان میں موحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب تک تو گلیشیئرز کا پانی جھیلوں اور دریاؤں کو سیر کر رہا تھا لیکن موسمی تبدیلی کے باعث گلیشیئرز تیزی سے پگھلنا شروع ہو گئے ہیں، جس کے باعث ایک طرف سیلاب آتے ہیں اور دوسری جانب گلیشیئرز میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

مختصراً موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان میں مجموعی طور پر پانی میں کمی واقع ہو گی۔

قطبی علاقوں کو چھوڑ کر پاکستان میں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ گلیشیئرز ہیں، جن کی تعداد سات ہزار ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے برائے ترقیاتی پروگرام کے ایک اندازے کے مطابق ہندو کش ہمالیہ میں تین ہزار گلیشیئر جھیلیں بنیں، جن میں سے 33 جھیلیں ایسی ہیں جن سے شدید خطرہ لاحق ہے اور 70 لاکھ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام پاکستان کے مطابق گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں 3044 گلیشیئر جھیلیں بن چکی ہیں، جن سے 71 لاکھ افراد کو خطرہ لاحق ہے۔ 

تاہم ہم سارا ملبہ موسمیاتی تبدیلی پر نہیں ڈال سکتے۔ درختوں کی کٹائی اور واٹر شیڈز کے غیر دانش مندانہ استعمال سے سیلاب اور بارش کا پانی تیزی سے دریاؤں میں داخل ہو جاتا ہے، جس سے زیر زمین پانی کی سطح بلند نہیں ہوتی اور نہ ہی راستے میں پانی کے ذخائر میں پانی رکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صوبہ سندھ میں بہت سے قدرتی آبی ذخائر میں کمی ہو رہی ہے۔ ہالیجی جھیل جو ایک رامسر سائٹ ہے، میں کمی واقع ہوئی ہے اور اس سے وہاں پر چرند پرند کے علاوہ پودوں اور درختوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

اسی طرح پانی کا رخ موڑنے کے باعث تربیلا اور غازی بروتھا ہائیڈرو پاور پلانٹ کے درمیان دریا کا حصہ اب دریا نہیں بلکہ موسمی تالاب یا جھیل کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے باعث سیلاب اور خشک سالی میں اضافہ اور اس کے ساتھ گرمی میں اضافے سے خوراک کی فراہمی میں کمی اور قیمتوں میں اضافہ ہو گا اور اس وجہ سے جنوبی اور جنوب مشرق ایشیا میں غذاتی قلت میں اضافہ ہو گا۔

گرمی کے اضافے سے ایشیائی ممالک میں توانائی کی طلب بڑھے گی۔ ایشیا میں 13 ممالک ایسے ہیں جہاں توانائی کا استعمال بہت زیادہ ہے اور ان 13 ممالک میں سے 11 ایسے ممالک ہیں جہاں توانائی کا عدم تحفظ اور صنعتی نظام کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔

آئی پی سی سی کے مطابق گلوبل وارمنگ اتنی تیزی سے ہو رہی ہے کہ ہم 1.5 ڈگری کے درجہ حرارت میں اضافے کی حد کو 2030 تک عبور کر جائیں گے۔

اس سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ حد ہم 2040 تک پار کریں گے۔ 2019 میں ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گذشتہ 20 لاکھوں سالوں سے زیادہ تھی اور گذشتہ 50 سالوں میں درجہ حرارت میں اتنی تیزی سے اضافہ ہوا، جو گذشتہ کم از کم دو ہزار سال میں نہیں دیکھا گیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات