بھارت: جموں و کشمیر، مودی کی دو سال میں پہلی عوامی شرکت

لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اتوار کے پروگرام میں مودی خطے کی ترقی کے ایک نئے دور کے آغاز کے لیے اقدامات کا اعلان کریں گے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی 19 مارچ 2020 کو نئی دلی میں جاپانی وزیر اعظم کی موجودگی میں بیان جاری کر رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی فائل)

وزیراعظم نریندر مودی اتوار کو بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں دو سال قبل نافذ کی گئیں سخت ترین پابندیوں کے بعد پہلی بار عوامی تقریب میں شرکت کریں گے۔

نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں طویل عرصے سے جاری شورش کو ختم کرنے اور مسلم اکثریتی علاقے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش میں اگست 2019 کو بھارتی آئین میں اس متنازع خطے کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کر دیا تھا۔

اس اقدام کے بعد بھارتی حکام نے مقامی عوام کی مخالفت کو روکنے کے لیے ہزاروں افراد کو گرفتار کیا، یہاں سخت ترین لاک ڈاؤن نافذ اور دنیا کا سب سے طویل انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن نافذ کیا تھا۔

اس متنازع خطے، جس کے پورے حصے پر پاکستان بھی دعویٰ کرتا ہے، بھارت نے پانچ لاکھ سے زیادہ فوجی اور نیم فوجی دستے تعینات کر رکھے ہیں۔

اتوار کو نریندر مودی کے اس علاقے کے دورے کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ جموں کے ہندو اکثریتی قصبے پالی میں ایک پرجوش استقبال کی توقع کر سکتے ہیں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے منعقدہ تقریب میں دسیوں ہزار افراد کی شرکت کی توقع ہے۔

مودی مقامی جمہوری نظام ’پنچایتی راج‘ کے موقع پر ایک تقریب کی صدارت کریں گے حالانکہ کشمیر میں 2018 سے ریاستی انتخابات نہیں ہوئے ہیں اور یہاں نئی دہلی کے مقرر کردہ گورنر کے تحت حکومتی نظام چلایا جا رہا ہے۔

کشمیر کے آخری وزیراعلی کو پابندی کے دوران حراست میں لیا گیا تھا اور ایک سال سے زیادہ عرصے بعد انہیں رہا کیا گیا تھا۔

لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اتوار کے پروگرام میں مودی خطے کی ترقی کے ایک نئے دور کے آغاز کے لیے اقدامات کا اعلان کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کرنے کے اس کے فیصلے کا مقصد دیرپا امن کو فروغ دینا اور شورش زدہ خطے میں سرمایہ کاری لانا تھا جہاں گذشتہ برسوں میں دسیوں ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد عام کشمیری شہریوں کی ہے۔

اس اقدام کے نتیجے میں کشمیر میں ایک سخت سکیورٹی حصار بنایا گیا ہے جس نے عوامی احتجاج کو عملی طور پر ناممکن بنا دیا ہے اور ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے شہری زندگی کو دبا دیا گیا ہے۔

تقریباً  دو ہزار 300 افراد کو ایک متنازع قانون سازی کے تحت گرفتار کیا گیا ہے جو حکام کو کسی بھی شخص کو دہشت گرد قرار دینے کی اجازت دیتا ہے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھارت کے ان اقدامات کی مذمت کی ہے۔

خطے میں غیر ملکی صحافیوں کے داخلے پر پابندی ہے اور مقامی رپورٹرز کو اکثر پولیس کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حالیہ مہینوں میں تین مقامی صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

دوسری جانب بھارتی پولیس کا دعویٰ ہے کہ 2019 میں کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے بعد سے تشدد میں کمی آئی ہے۔

لیکن اس دوران ایک ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں فوجی، عسکریت پسند اور عام شہری شامل ہیں۔

زیادہ تر تشدد مسلم اکثریتی کشمیر کی وادی میں ہوا ہے جہاں کا دورہ مودی کے اس ہفتے کے پروگرام میں شامل نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا