کارگل جنگ: پاکستان کے ڈر سے بھارتی فوجی روشنی بجھا کر چلتے تھے

ایک بھارتی فوجی کانوائے کارگل جنگ کے دوران (اے ایف پی)

’کارگل کے بیشتر علاقے میدان جنگ میں تبدیل ہو چکے تھے۔ رات کے وقت بھارتی فوج کی گاڑیاں بغیر ہیڈ لائٹ جلائے چلتی تھیں کیوں کہ لائٹ جلا کر چلنے والی گاڑیوں کو بلندی پر بیٹھے پاکستانی فوجی نشانہ بناتے تھے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح ایک پاکستانی گولہ بھارتی فوج کے ایمونیشن ڈپو میں ایک ہولناک آگ کا سبب بن گیا تھا۔‘

بھارت کے زیر انتظام لداخ کے ضلع کارگل (اصل نام کرگل ہے، مگر اب کارگل مستعمل ہو گیا ہے) سے تعلق رکھنے والے معروف سماجی کارکن اور سابق صحافی سجاد حسین عرف سجاد کارگلی کی یہ سنہ 1999 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان لڑی جانے والی ’کارگل جنگ‘ سے متعلق ایسی یادیں ہیں جن کو بقول ان کے ’بھولنا ناممکن ہے۔‘

1999 میں مئی سے جولائی تک ہمالیائی پہاڑیوں میں لڑی جانے والی کارگل جنگ کے دوران دونوں ممالک کے سینکڑوں فوجی مارے گئے جبکہ ہزاروں دیگر زخمی ہو گئے۔ اس جنگ کے دوران لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف عام شہریوں کا بھی کافی جانی و مالی نقصان ہوا تھا۔

بھارت کا دعویٰ ہے کہ اس کی فوج نے پاکستانی فوجیوں کو واپس اپنی جگہ پر دھکیل کر جنگ جیت لی تھی۔ وہ ہر سال 26 جولائی کو اس ’جیت‘ کی خوشی اور یاد میں ’کارگل وجے دیوس‘ مناتا ہے۔

سجاد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ جنگوں کو گلے لگانا یا ان پر خوشی منانا عقل مندی نہیں ہے۔

’کارگل کو دنیا جنگوں کی وجہ سے جانتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کارگل برصغیر کا سب سے امن پسند علاقہ ہے۔ یہاں جرائم کی شرح صفر کے برابر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کارگل کو جنگوں کی وجہ سے نہیں بلکہ یہاں کی ثقافت اور لوگوں کی وجہ سے جانا جائے۔

’جنگوں سے یہاں کے لوگوں کو سوائے تباہی کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ سنہ 1999 کی جنگ کے دوران اور اس کے بعد یہاں کے لوگ بری طرح متاثر ہوئے۔ جنگیں تباہی اور ہلاکتوں کو دعوت دیتی ہیں۔ جنگ کو گلے لگانا یا اس پر خوشی منانا عقل مندی نہیں۔‘

جنگ کی یادیں

سجاد حسین کا آبائی گاؤں کاکسر ہے جو قصبہ کارگل سے 20 کلو میٹر دور زیرو لائن کے نزدیک واقع ہے۔ سنہ 1999 کی ’کارگل‘ جنگ کے وقت ان کی عمر 16 سال تھی اور وہ دسویں جماعت کے طالب علم تھے۔

’کارگل کی جنگ ہمارے لیے کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ ہمیں اس کا ٹریلر بار بار دکھایا جاتا تھا۔ سنہ 1991 میں شدید گولہ باری کی وجہ سے ہمیں پہلی بار نقل مکانی کرنا پڑی۔ تب کئی لوگ مارے گئے تھے۔

’1996 میں ہمیں چار دن اور پانچ راتیں ایک زیر زمین بنکر میں گزارنا پڑیں۔ اس دوران ہمیں محض چاول اور پانی پر اکتفا کرنا پڑا۔ کل ملا کر سنہ 1991 سے سنہ 1999 تک ہمیں تین بار اپنا گھر بار چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ کئی بار ہماری فصلیں بھی جلیں۔

’1999 میں کارگل جنگ چھڑی تو منظر پوری دنیا کے سامنے آ گیا۔ ہم قصبہ کارگل میں آ کر رہنے لگے تھے، لیکن جب یہ پورا علاقہ میدان جنگ میں تبدیل ہوا تو ہمیں یہاں سے بھی نقل مکانی کرنا پڑی۔

’قصبہ کارگل اور سرحد کے نزدیک والے علاقوں میں بمشکل ہی کوئی عام شخص نظر آتا تھا۔ ہر طرف صرف فوج ہی فوج نظر آتی تھی۔ فضا میں ہر وقت ہیلی کاپٹر چلتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔

’ہم تک جو خبریں پہنچتی تھیں اُن کا ذریعہ بھارتی فوج کے ساتھ کام کرنے والے مقامی پورٹر یا مزدور تھے۔ جب کوئی پورٹر فوج کے ساتھ کام کرنے کے لیے جاتا تھا تو اس کے چہرے پر غم اور مایوسی نظر آتی تھی لیکن جب وہ واپس آتا تھا تو کافی خوش نظر آتا تھا۔‘

انجینیئر عارف حسین کارگل کے بٹالک نامی علاقے کے رہائشی ہیں جہاں سے سنہ 1999 کی کارگل جنگ شروع ہوئی تھی۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’میں آٹھ سال کا تھا جب کارگل کی جنگ چھڑ گئی، لیکن کمسنی کے باوجود جنگ کے مناظر میرے دل و دماغ میں ہمیشہ کے لیے گھر کر گئے ہیں۔

’ہماری راتیں زیر زمین بنکروں کی چار دیواری میں یا آسمان میں چلنے والے چمکتے بارودی گولوں کو گننے میں گزرتی تھیں۔ ہم حساب رکھتے تھے کہ پاکستانی فوج نے کتنے گولے داغے اور بھارتی فوجی نے کتنے۔

’ہم سائرن کا بجنا اور بھاگ کر زیر زمین بنکر میں چھپنا کبھی نہیں بھول سکتے۔ ہم اپنی ایک پڑوسی خاتون کو بھی نہیں بھول سکتے جو گولہ لگنے کی وجہ سے جاں بحق ہوئی تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنگ کیسے شروع ہوئی تھی؟

بھارتی فوج کی لداخ سکاؤٹس کے سبکدوش افسر کپتان تاشی سیفل کو بھارتی حکومت نے کارگل کی جنگ کے دوران بہادری کا مظاہرہ کرنے پر تیسرے بڑے فوجی اعزاز ’ویر چکر‘ سے نوازا ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کارگل کی جنگ پاکستان کی وجہ سے شروع ہوئی تھی اور بھارت نے سخت مشکلات کے باوجود اس جنگ میں فتح حاصل کی۔

’سردی کے موسم میں پاکستانی فوجی اونچی اونچی پہاڑیوں پر آ کر بیٹھ گئے تھے۔ فروری کے وسط میں ہماری ایک ٹیم، جو قریب دس فوجیوں پر مشتمل تھی، گشت کے لیے نکلی اور کاکسر نامی علاقے میں لاپتہ ہو گئی۔

’اس گشتی پارٹی کو ڈھونڈنے کے لیے جو نئی سرچ ٹیمیں بھیجی گئی تھیں انہوں نے واپس آ کر تصدیق کی کہ پاکستانی فوج نے مختلف علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس کے بعد جنگ شروع ہوئی۔

’میں جنگ کے دوران فوجیوں کی ایک ٹیم کی سربراہی کر رہا تھا۔ چھ جولائی کو ایک پاکستانی حملے میں میرے پانچ جوان مارے گئے۔ خود مجھے دو گولیاں لگیں۔ ہم نے بھی جوابی کارروائی میں کم از کم پانچ پاکستانی فوجی مارے اور ایک کو زندہ پکڑا۔‘

کپتان تاشی سیفل کے مطابق بھارت کے لیے کارگل کی جنگ ایک مشکل لڑائی تھی جس کو جیتنے کے لیے سینکڑوں فوجیوں کو اپنی جانیں قربان کرنا پڑیں۔

’ہمارے لیے یہ جنگ بہت مشکل تھی۔ جن کے ساتھ ہماری لڑائی تھی وہ اونچائی پر بیٹھے تھے۔ ہمیں اپنے علاقے واپس حاصل کرنے کی خاطر آگے کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے لڑنا پڑا۔

’ہم نے پاکستان کو واپس دھکیلا وہ ہماری جیت تھی۔ جن علاقوں پر پاکستانی فوج نے قبضہ کر لیا تھا ہم نے ان کو خالی کرایا۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارا بھی کافی نقصان ہوا۔‘

باقر علی اپنی کتاب ’تاریخ کارگل‘ میں اس جنگ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’ہر سال سردیوں میں دونوں ملکوں کی فوجیں اونچی پہاڑیوں سے کم از کم دس کلو میٹر پیچھے ہٹ جاتی تھیں اور گرمیوں کے شروع ہوتے ہی پھر اپنی جگہ واپس آ جاتی تھیں۔

’اس سال پہاڑوں پر برف کم پڑی تھی۔ پاکستانی فوج نے اس کا فائدہ اٹھایا اور دراس و بٹالک نامی علاقوں میں بہت اندر آ کر بیٹھ گئی۔ بھارتی فوج کو جب اس کا علم ہوا تو طرفین کے درمیان شدید کشیدگی پیدا ہو گئی جو بعد ازاں جنگ پر منتج ہوئی۔‘

باقر علی کا دعویٰ ہے کہ کارگل کی جنگ پاکستانی فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کے ذہن کی پیداوار تھی۔

’اس بے مطلب جنگ کی وجہ سے سرحد کے دونوں طرف سینکڑوں فوجی مارے گئے لیکن سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کارگل میں اس جنگ کے دوران 40 عام شہریوں کی جانیں گئیں جن میں سے کچھ کا تعلق کشمیر اور بھارت کے مختلف علاقوں سے تھا۔‘

کپتان تاشی سیفل کہتے ہیں کہ لڑائی کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، اگر مسائل کو حل کرنے کا کوئی طریقہ ہے تو وہ بات چیت ہے۔

’چین پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے مشرقی لداخ میں کافی گڑبڑ کر رہا ہے۔ اس کا بھارتی حدود پر قابض ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ طرفین کے درمیان کشیدگی برقرار ہے، اب اگر کچھ باقی ہے تو وہ گولی چلنا ہے۔

’چین سے ہمیں بہت خطرہ ہے۔ اگر چین سے لڑائی ہوئی تو ہمارا برا حال ہو گا۔ بھارت باتیں زیادہ اور کام کم کرتا ہے جبکہ اس کے برعکس چین باتیں کم کرتا ہے اور کام زیادہ کرتا ہے۔‘

ہزاروں لوگوں کی نقل مکانی

سجاد حسین کہتے ہیں کہ کارگل جنگ کے دوران کارگل اور دراس علاقوں میں رہائش پذیر قریب 60 ہزار افراد کو اپنی جان بچانے کے لیے نقل مکانی کرنا پڑی تھی۔

’جس طرح ہمیں نقل مکانی کرنا پڑی اسی طرح سرحد کی دوسری طرف بلتستان میں بھی لوگوں کو بھی اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا تھا۔

’کارگل کے لوگوں کو منجی سے پرکاچک تک جتنے بھی محفوظ دیہات نظر آئے انہوں نے ان میں پناہ لی۔ خوبصورت پہلو یہ ہے کہ ان دیہات کی مساجد میں اعلان ہوا کہ جو لوگ کارگل اور دراس سے نقل مکانی کر کے یہاں آ پہنچے ہیں انہیں مکانوں میں جگہ دی جائے اور اگر مکانوں میں جگہ کم ہے تو مستقل مکین صحنوں میں خیمے لگا کر خود ان میں رہیں۔

’ان دیہات کے لوگوں نے ہمیں نہ صرف اپنے مکانوں میں جگہ دی بلکہ ہمیں اپنے خاندان کا حصہ سمجھ کر کھانا کھلایا اور ہمارا خیال رکھا۔ میرا خاندان بھی زائد از دو ماہ تک ایک گھر میں ڈیرہ زن رہا۔

’ہمیں کبھی احساس نہیں ہوا کہ ہم نقل مکانی کرنے والے بے بس لوگ ہیں۔ کوئی ایسا خاندان نہیں تھا جس کو خیمہ لگا کر کہیں پر رہنا پڑا۔ ان دیہات کے لوگوں نے دل کھول کر 60 ہزار لوگوں کو اپنے مکانوں میں جگہ دی۔

’کارگل جنگ ختم ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد ہم واپس کارگل لوٹ آئے، لیکن ایک سال بعد ہی ہم اپنے آبائی گاؤں کاکسر جا پائے۔‘

سجاد حسین کے مطابق کارگل کی جنگ کے بعد بھی چند برسوں تک کارگل کی سرحدوں پر گولہ باری کے واقعات پیش آتے رہے۔

’2003 میں طرفین کے درمیان جنگ بندی معاہدہ ہوا۔ تب سے لے کر اب تک کارگل میں سرحد خاموش ہی ہے۔‘

قدیم راستے کھولنے کی مانگ

سجاد حسین نے بتایا کہ کارگل کے لوگوں کی سب سے بڑی اور دیرینہ مانگ ہے کہ اس خطے کو پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان سے ملانے والے تاریخی اور قدیم راستوں کو کھولا جائے تاکہ سنہ 1947 کے بٹوارے اور اس کے بعد لڑی جانے والی جنگوں کے نتیجے میں بچھڑنے والے خاندانوں کے افراد ایک دوسرے سے مل سکیں۔

’مہذب ممالک میں لوگوں کو اپنے رشتہ داروں سے الگ نہیں کیا جاتا، لیکن بدقسمتی سے ہمیں بلتستان میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں سے الگ کیا گیا ہے۔

’کارگل اور بلتستان کے لوگوں نے صرف جنگی ماحول دیکھا۔ سنہ 1947 میں سرحد پر کھینچی گئی لکیر کے آر پار رہنے والے رشتہ داروں کو ایک دوسرے سے ملانے کی کوششیں کبھی نہیں دیکھیں۔

’بدقسمتی کا یہ عالم ہے کہ جب یہاں کوئی دریا برد ہو جاتا ہے تو لاش دو کلو میٹر کے راستے کی بجائے ہزاروں کلو میٹر کے سفر کے بعد واپس بھیجی جاتی ہے۔‘

سجاد حسین نے کارگل کو گلگت بلتستان سے جوڑنے والی قدیم سڑکیں گنتے ہوئے کہا: ’یہاں پر تین چار ایسی سڑکیں ہیں جو کارگل کو بلتستان کے ساتھ جوڑتی تھیں۔ ایک کارگل سکردو روڑ، دوسرا استور مشکوہ ویلی روڑ، تیسرا شنعگو گلتری روڑ اور چوتھا ترتک خپلو روڑ۔

’یہ ہماری قدیم اور تاریخی سڑکیں ہیں۔ جنگی ماحول کی وجہ سے ان سڑکوں پر نقل و حرکت نا کے برابر ہے۔ جب آپ تمام نامساعد حالات کے باوجود سکھوں کے لیے کرتارپور کھول سکتے ہیں تو دو پرامن علاقوں کو آپس میں جوڑنے والے راستے کیوں نہیں کھولے جا سکتے؟

’سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ بلتستان کے ضلع کھرمنگ میں 32 دیہات ایسے ہیں جن کا ریونیو ریکارڈ ابھی بھی کارگل میں ہے۔‘

انجینیئر عارف حسین کا کہنا ہے کہ کارگل اور بلتستان میں 20 ہزار خاندان ایسے ہیں جن کے سرحد کے آر پار رشتہ دار ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کے ہاں جا نہیں پاتے۔

’میرے پڑوس میں مظبر نامی ایک گاؤں ہے۔ اس گاؤں کے 90 فیصد لوگ سنہ 1971 کی جنگ کے دوران ہجرت کر کے بلتستان چلے گئے۔

’میں ایک ایسی خاتون کو جانتا ہوں کہ جس کے ماں، باپ اور بہن سرحد کے دوسری طرف رہتے ہیں۔ اس نے سنہ 1971 کے بعد ایک بار بھی اپنے ان خونی رشتہ داروں کو نہیں دیکھا ہے۔

’اسی طرح دوسرے خاندانوں میں کسی کی ماں یہاں ہے تو باپ نے ہجرت کی ہے۔ کسی کی بہن یہاں ہے تو بھائی سرحد کی دوسری طرف رہتا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ