21 سال قبل 12 اکتوبر کے یہی دن تھے، گرمی رخصت ہو چکی تھی۔ دن کو پیلی دھوپ اچھی لگتی تھی، البتہ رات کو پالا زیادہ محسوس ہوتا تھا۔
اس وقت اس زمین زاد کی عمر کا 16واں سال تھا، جماعت نہم کے طالب علم کے طور پر سکول سے واپسی پر میرا باقی ماندہ وقت گھر میں ابو جی کی معیت میں گزرتا تھا، کتابوں، رسالوں اور اخبارات سے بھرے اس کمرے میں محض ایک چارپائی، ایک میز اور دو کرسیوں کی گنجائش تھی۔ ان دنوں ٹی وی خراب تھا تو حالات حاضرہ سے آگاہی کا سب سے بڑا ذریعہ ’نوائے وقت‘ کے بعد ریڈیو ہی تھا جو ابو جی کی میز پر دھرا رہتا۔ عجیب سے دن تھے وہ بھی۔ ناسازی طبع کی بنا پر ابو زیادہ تر چارپائی پر اونگھتے رہتے۔ ہم سکول سے آتے تو ان کو نوائے وقت کا فکاہیہ کالم ’سر راہے‘ اور اداریہ پڑھ کر سناتے۔ اس دوران وہ غلط تلفظ پر ہماری گرفت بھی کرتے جاتے۔
12 اکتوبر 1999 کا دن بھی معمول کے مطابق گزرا تھا۔ پیر کا دن تھا۔ سکول سے واپسی پر گھر آ کر ہوم ورک کیا اور اگلے دن انگریزی کے ٹیسٹ کی تیاری کرنی شروع کر دی، گورنمنٹ ہائی سکول اوچ شریف میں میرا جماعت نہم کا سکیشن (اے) تھا جس کے انچارج جناب محمود اکبر اعوان تھے۔ تیاری کرتے کرتے میں اپنی انگریزی کی کتاب اٹھائے ابو کے کمرے میں داخل ہوا۔ وہ کوئی کتاب پڑھنے میں مصروف تھے، ریڈیو چل رہا تھا۔
شام پانچ بجے کی خبروں میں یہ نیوز کاسٹر نے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے دورہ شجاع آباد کے بارے میں خبریں نشر کرنے کے بعد یہ خبر نشر کی کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کو ریٹائر کر کے ان کی جگہ ضیاء الدین بٹ کو نیا آرمی چیف مقرر کر دیا گیا ہے۔
ابو نے خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے اس اقدام کو فوج شاید برداشت نہ کرے۔ سرشام اچانک ریڈیو پاکستان کی نشریات تعطل کا شکار ہو گئیں۔ رات آٹھ بجے بی بی سی کے ’سیر بین‘ پروگرام میں وقار احمد نے نواز شریف حکومت کی برطرفی کی اطلاع دیتے ہوئے مھض اتنا کہا کہ فوج نے ملک کا اقتدار سنبھال لیا ہے۔ بعدازاں رات سوا دس بجے ریڈیو پاکستان کی نشریات بحال ہوئیں اور وہاں قومی ترانے نشر کیے جانے کے علاوہ وقفے وقفے سے یہ اعلان کیا جاتا رہا کہ فوج نے ملک کا اقتدار سنبھال لیا، چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کچھ دیر بعد قوم سے خطاب کریں گے۔
جنرل پرویز مشرف کی تقریر سماعت کرنے کے لیے میں ابو کے ساتھ ان کے کمرے میں ان کی چارپائی کی پائنتی میں رضائی اوڑھ کر انتظار کرتا رہا، انگریزی کی کتاب بھی میرے ہاتھ میں تھی، لیکن ریڈیو پر سوائے ملی نغموں کے دور دور تک کسی تقریر کا نام و نشان تک نہ تھا، نیند کے ہاتھوں مجبور ہر کر آخر کار میں تو سونے چلا گیا، تاہم صبح ابو کی زبانی معلوم ہوا کہ رات تین بجے جنرل پرویز مشرف نے قوم سے خطاب کیا، نوازحکومت کے خاتمے اور ملکی سلامتی کے خلاف ’سازش‘ ناکام بنانے کااعلان کیا۔ ابھی انہیں خود بھی معلوم نہیں تھا کہ انہوں نے کس حیثیت میں حکومت کرنی ہے۔ تقریر میں مارشل لا کے نفاذ کا لفظ بھی استعمال نہ کیا گیا۔ نہ ہی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جیسی کوئی اصطلاح ان کی زبان پر آئی۔
پاکستان کی تاریخ کا یہ چوتھا ’ٹیک اوور‘ اس لحاظ سے منفرد تھا کہ اس کے لیے کسی سنگین سیاسی و آئینی بحران کا جھوٹا سچا جواز نہیں تراشا گیا تھا بلکہ ایک منتخب آئینی حکومت کا تختہ الٹنے کا سبب صرف ذاتی تھا۔ کارگل وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان اختلافات کا باعث بن گیا تھا اور معاملہ بے اعتمادی کی انتہا کو پہنچ گیا۔
جنرل شاہد عزیز کے بقول جنرل پرویز مشرف کے سری لنکا جانے سے پہلے اس آخری ملاقات میں فیصلہ یہ تھا کہ ان کی غیر موجودگی میں وزیر اعظم انہیں فوج کے سربراہ کی کرسی سے ہٹانے کی کارروائی کریں تو حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ کئی دنوں سے ان کے گھر پر اس سلسلے کی ملاقاتیں جاری تھیں، جن میں شاہد عزیز کے علاوہ جنرل محمود، جنرل عزیز خان ، جنرل احسان الحق، بریگیڈیئر راشد قریشی اور چیف کے پرنسل سٹاف افسر موجود ہوتے۔
بریگیڈیئر صدیق سالک نے سقوطِ ڈھاکہ پر Witness to Surrender لکھی تھی (اردو میں ’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘)، کرنل اشفاق حسین نے کارگل پر Witness to Blunder لکھی۔ اس کا آخری بابThe Longest Day 12 اکتوبر پر ہے۔ کرنل اشفاق تب آئی ایس پی آر میں تھے اور اس شب قوم کے نام جنرل مشرف کا خطاب لکھنے کا ’اعزاز‘ بھی انہی کے حصے میں آیا۔
کرنل اشفاق کراچی میں تھے، جنرل مشرف اس شام کراچی میں اترے تھے اور ان کا خطاب بھی وہیں سے تھا۔
اس ’طویل ترین دن‘ کی کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) افتخار علی خان اینڈوسکوپی کے باعث گھر پر گہری نیند سو رہے تھے، جب فون پر بیگم صاحبہ سے کہا گیا کہ انہیں جگا کر ایئر پورٹ پہنچنے کے لیے کہیں (جہاں شجاع آباد کے جلسے کے بعد وزیر اعظم کا جہاز آ رہا تھا) وزیر اعظم نے انہیں اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھایا اور بتایا کہ انہیں ایک چھوٹا سا کام کرنا ہے، ایک نوٹیفکیشن جس کے مطابق جنرل مشرف کو ریٹائر کر کے جنرل ضیاء الدین کو نیا چیف آف آرمی سٹاف مقرر کر دیا گیا ہے۔
حیرت سے دوچار جنرل افتخار نے پوچھا، ’مسٹر پرائم منسٹر، کیا آپ نے ابا جی یا شہبازشریف سے مشورہ کیا ہے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’نہیں، انہیں تو بتانا بھی نہیں، آپ سے جو کہا گیا وہی کریں۔‘
وزیر اعظم کو اپنے ارادے میں اٹل پا کر جنرل افتخار نے بڑی ملائمت سے کہا، ’اس کے لیے ضروری ہے کہ مجھے تحریری احکامات دیے جائیں۔‘
ایوانِ وزیرِ اعظم میں گاڑی سے اترتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئر جاوید سے کہا کہ وہ جنرل افتخار کو تحریری حکم دے دیں اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے، ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنرل افتخار سے کہا، ’وہاں تشریف رکھیں اور کسی سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔‘ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ وہ کسی سے نہیں ملیں گے، اور ایک اہم معاملے کو پہلے نمٹانا چاہتے ہیں۔
ادھر ملٹری سیکریٹری نے جنرل ضیاء الدین کو کال کی کہ وزیر اعظم ان سے فوری ملاقات کے خواہشمند ہیں۔ وزیر اعظم ہاؤس پہنچنے پر انہیں بتایا گیا کہ جنرل مشرف کو برطرف کر کے انہیں آرمی چیف مقرر کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد وزیر اعظم ان احکامات کی فائل لے کر صدر پاکستان رفیق تارڑ کے توثیقی دستخط کے لیے خود ایوانِ صدر چلے گئے۔
جنرل ضیاء الدین کے لیے بھی یہ ایک خبر ہی تھی جن کی ریٹائرمنٹ میں ابھی چھ ماہ باقی تھے اور وہ ریٹائر منٹ کے بعد کسی ’مصروفیت‘ کی تلاش میں تھے۔ ایوان صدر سے واپسی پر آرمی چیف کے طور پر جنرل ضیاء الدین کے تقررکی باقاعدہ ’رسم‘ ہوئی۔ وہ تین پھولوں والی وردی میں وزیر اعظم ہاؤس آئے تھے، اب ایک اور پھول کی ضرورت تھی، بریگیڈیئر جاوید نے اپنے شانوں سے ایک ایک پھول اتارا اور جنرل ضیا الدین کے شانوں پر سجا دیا۔ نئے آرمی چیف نے پاک فوج کے ملٹری سیکریٹری میجر جنرل سے فون پر رابطہ کیا، اپنے تقرر کی خبر سنائی اور دو پوسٹنگ آرڈر جاری کرنے کی ہدایت کی، جنرل محمود اور جنرل عزیز کو فوری طور پر ان کے عہدوں سے ہٹا کر ان کی جگہ جنرل سلیم حیدر کو 10 کور کمانڈر اور جنرل اکرم کو چیف آف جنرل سٹاف مقرر کر دیا گیا تھا۔
جب جنرل محمود اور جنرل عزیز کو یہ خبر ملی تو وہ گالف کھیل رہے تھے۔ جنرل عزیز نے کور کمانڈر کراچی جنرل عثمانی کو فون کیا کہ اب کیا کیا جائے؟ جنرل عثمانی نے پوچھا، کیا جنرل مشرف کولمبو جاتے ہوئے کوئی ہدایت دے گئے تھے؟ اثبات میں جواب پا کر جنرل عثمانی نے کہا، پھر ان کی ہدایات پر عمل کرو۔
تھوڑی دیر بعد جنرل عثمانی کو نئے آرمی چیف کا فون آیا کہ وہ ایئر پورٹ پر جنرل مشرف کو ریسیو کریں اور پروٹوکول کے ساتھ آرمی ہاؤس لائیں (جہاں آرمی چیف کراچی میں قیام کے دوران ٹھہرتے ہیں)۔ اس کے فوراً بعد پرائم منسٹر ہاؤس سے ایک اور فون آیا۔
ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئر جاوید کہہ رہے تھے کہ جنرل مشرف کو پروٹوکول دینے کی ضرورت نہیں، انہیں آرمی ہاؤس لا کر ’پابند‘ کر دیا جائے۔ اس یقین دہانی کے بعد کہ جنرل عثمانی مشرف کے ساتھ ہیں، راولپنڈی میں کارروائی کا آغاز ہوا اور تاریخ ایک نیا موڑ مڑ گئی۔
12 اکتوبر 2020 میں 12 اکتوبر 1999 کی یاد داغ داغ اجالے اور شب گزیدہ سحر کی کہانی کے علاوہ کچھ نہیں۔ زندگی اب بھی چل رہی ہے، وقت اب بھی بہہ رہا ہے اور ملک اب بھی چل رہا ہے۔ البتہ 12 اکتوبر 1999 کے میرے ہم دم ایک یاد بن گئے، 12 اکتوبر 1999 کو رضائی اوڑھنے پر مجبور کر دینے والا پالا بھی خواب ہو گیا۔