ایف بی آر کے لامحدود اختیارات کے خلاف ہڑتال، پاکستان میں کاروبار کرنا مزید مشکل ہو گا؟

سیکشن 37AA کے تحت ایف بی آر کے اختیارات میں اضافہ کرتے ہوئے ادارے کو کاروبار کی بندش سے لے کر گرفتاری تک کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔

ایک شخص 4 جولائی 2024 کو فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کے دفتر سے باہر نکل رہا ہے۔ ادارے نے ملک کے 45 شہروں میں غیر منقولہ جائیدادوں کی قیمت میں اضافہ کیا ہے (اے ایف پی)

وفاقی حکومت نے بجٹ 2025-26 منظور کر لیا ہے۔ سیکشن 37AA کے تحت ایف بی آر کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے، جس کے تحت ادارے کو کاروبار کی بندش سے لے کر گرفتاری تک کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔

ملک بھر کے چمبرز آف کامرس نے اس قانون کے خلاف ہڑتال کا آغاز کر دیا ہے اور چند دنوں میں کارباری سرگرمیاں بھی معطل کی جا سکتی ہیں۔

ایف بی آر ٹیکس ایڈوائزری کمیٹی کے ممبر اور لاہور ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکرٹری عبدالوحید نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’37AA سیلز ٹیکس ایکٹ کا ایک سیکشن ہے، جس کے تحت انکم ٹیکس آفیسر (آئی آر او) کسی واضع ثبوت، ٹرائل اور کمشنر کی منظوری کے بغیر ہی چھ کروڑ روپے سے بڑے مبینہ ٹیکس فراڈ کا کیس بنا سکتا ہے، اکاونٹ منجمند کر سکتا ہے، ریکارڈ قبضے میں لے سکتا ہے، پراپرٹی کو قبضے میں لے سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کمشنر کی اجازت کے بغیرفوری گرفتار بھی کر سکتا ہے۔

’ملزم پری اریسٹ بیل بھی نہیں کروا سکتا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 37AA کے خلاف پہلے ہی فیصلہ دے رکھا ہے۔37AA ایف بی آر کی ٹیکس آمدن بڑھانے کا قانون نہیں ہے بلکہ ٹیکس آفیسرز کی آمدن بڑھانے کا قانون ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایف بی آر میں پہلے ہی کرپشن عروج پر ہے۔ آئی آر او کے جاری کردہ ٹیکس نوٹسز 90 فیصد تک غلط ہوتے ہیں اور انھیں ٹرائل میں چیلنج کیا جاتا ہے۔ گرفتاری کے فوراً بعد آئی آر او کمشنر کو بتانے کا پابند ہو گا لیکن سوال یہ ہے کہ اس شخص کو انصاف کیسے ملے گا جس کی عزت سربازار نیلام کر دی گئی ہو۔‘ 

اس حوالے سے فیڈریشن آف پاکستان چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے سینیئر نائب صدر ثاقب فیاض منگو نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایف بی آر کو پچھلے سالوں میں بھی بہت زیادہ اختیارات دیے گئے تھے لیکن ٹیکس اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔ جو موسمی کاروباری ہیں وہ تو رشوت دے کر ڈیل کر لیں گے لیکن جو اصل کاروباری ہیں وہ کتنی مرتبہ رشوت دیں گے؟ حقیقت میں وہ زیادہ متاثر ہوں گے۔

’کاروباری حلقوں کی مشاورت کے بغیر قوانین بنانے اورمنظور کرنے سے کاروبار دیگر ممالک میں منتقل ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ آج کل چیمبرز میں یہ مشاورت زیادہ ہو رہی ہے کہ پاکستان سے کاروبار بیرون ملک کیسے منتقل کیا جا سکتا ہے۔‘

لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر میاں ابوذر شاد نے انڈیپنڈنٹ اردوکو بتایا کہ ’جو جرم ابھی ثابت نہیں ہوا اس پر گرفتاری کا اختیار دے دینا نامناسب ہے۔ گرفتاری کے بعد اگر ٹرائل میں یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ انکم ٹیکس آفیسر کا ٹیکس فراڈ کا دعوی غلط ہے تو گرفتاری سے ہونے والے نقصان کا ذمہ دار کون ہو گا؟ وائٹ کالر کرائم ایک حساس معاملہ ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں ٹیکس فراڈ کے شک پر گرفتاری کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

’مشرف دور میں بھی بزنس کمیونٹی کو ٹیکس کے نام پر جیلوں میں ڈالا گیا تو ملک میں کاروبار تقریباً منجمد ہو گیا تھا، اس مرتبہ بھی غلطی کر دی گئی ہے۔ آج نہیں تو کل یہ فیصلہ واپس لینا ناگزیر ہو سکتا ہے۔ جتنی جلدی واپس لیا جائے گا کاروباری حالات اتنی ہی جلدی معمول پر آسکیں گے اورمزید سرمایہ کاری کی جا سکے گی۔‘

کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر جاوید بلوانی نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایک طرف سرکار کہتی ہے کہ ٹیکس نظام کو ڈیجیٹل کر رہے ہیں تا کہ آفیسرز کی مداخلت نہ ہو اور دوسری طرف ٹیکس دہندگان کو آفیسرز کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

’لوگ ڈرے ہوئے ہیں، وہ یا تو ملک چھوڑیں گے یا ایسا کام کریں گے جس میں ٹیکس کا مسئلہ نہ ہو۔ سرکار نے اگر قانون تبدیل نہ کیا تو اگلے ماہ سے ہی ٹیکس آمدن پر اثرات آنا شروع ہو جائیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت نے بزنس کمیونٹی سے مشاورت کیے بغیر 37AA کا قانون پاس کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے 37A کے خلاف فیصلہ دیا تو حکومت 37AA کا قانون لے آئی۔ کیا اب اس کے خلاف پٹیشن کی جائے اور پورا سال کیسز بھگتے جائیں؟ 37AA کالا قانون ہے۔ حکومت یقین دہانی کرواتی رہی کہ بزنس کمیونٹی کے مطالبات مانے جائیں گے لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیا۔

’اگر حکومت نے 37AA کا قانون واپس نہ لیا تو ملک میں کاروباری سرگرمیاں معطل ہو سکتی ہیں۔ ایسے فیصلوں سے ٹیکس اکٹھا نہیں ہو گا بلکہ اس میں مزید کمی آ سکتی ہے۔ ٹیکس اہداف حاصل کرنے کے لیے ماحول سازگار کرنے،  بزنس ایکٹیوٹی بڑھانے اور ٹیکس ریٹ کم کرنے کی ضرورت ہے۔‘

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جو قوانین سرکار بنا رہی ہے اس سے کاروبار بند ہوں گے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بزنس مین کو سب سے زیادہ عزت دی جاتی ہے۔ پاکستان میں نئے قوانین بزنس کمیونٹی کی تذلیل کا باعث بن رہے ہیں اور ڈالر ایک مرتبہ پھر ملک سے باہر جانا شروع ہو جائے گا۔

’اگر ٹرائل کے دوران بغیر ثبوتوں کےگرفتاری کا قانون بنانا ہے تو صدر، وزیراعظم، ججز، بیوروکریٹ اور سیاستدانوں کے خلاف جو کیسز چل رہے ہیں ان کی گرفتاری بھی ٹرائل کے دوران بغیر ثبوتوں کے کرنے کا قانون بنایا جائے۔ اس سے کاروباری طبقے کو انصاف ہوتا دکھائی دے گا اور وہ ملک میں کاروبار کرنے کو ترجیح دے سکتے ہیں۔‘

گلگت چیمبر آف کامرس کے صدر اشفاق احمد نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جو ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کرواتے انہیں دس کروڑ روپے کی کمرشل پراپرٹی اور 70 لاکھ روپے کی گاڑی لینے کی اجازت دے دی گئی ہے اور جو ٹیکس ریٹرن جمع کرواتے ہیں انہیں جیلوں میں ڈالنے کی تیاری ہے۔

’شاید منصوبہ بندی کے تحت کاروبار کرنا مشکل کیا جا رہا ہے تاکہ ملک کے باعزت کاروباری طبقےکو مایوس کیا جا سکے۔‘

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ