توہینِ مذہب کے قوانین کی واپسی مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہوگی

راقب احسان لکھتے ہیں کہ برطانوی قانون کے تحت اسلام کو خاص رعایت دینے سے معاشرے میں مسلمانوں کے خلاف تعصبات مزید گہرے ہوں گے۔

توہین مذہب کے جرم میں سزا پانے والے حمیت کوسکن لندن میں ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کی عدالت میں 2 جون 2025 کو پہنچتے ہوئے (اے پی)

بطور مسلمان، میں اس شخص کی سزا کو خوش آئند نہیں سمجھتا، جس نے قرآن کا ایک نسخہ نذرِ آتش کیا۔

حمیت کوسکن، جو کہ آرمینی اور کرد نژاد 50 سالہ شخص ہیں، ترکی میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے اور جن کے خاندان کو اسلام پسندوں کے ہاتھوں مظالم کا سامنا رہا۔ انہیں مذہبی بنیاد پر عوامی نظم کو خراب کرنے کے جرم میں مجرم قرار دیا گیا۔

انہیں 240 پاؤنڈ جرمانہ کیا گیا کیونکہ انہوں نے ترکی کے قونصل خانے کے باہر جلتی ہوئی کتاب (قرآن) کو بلند کرتے ہوئے نعرے لگائے: ’اسلام دہشت گردی کا مذہب ہے۔‘

وہ تنہا احتجاج کر رہے تھے، جو اس وقت ختم ہوا جب ایک راہگیر نے اُن پر حملہ کر دیا۔

اگرچہ میں قرآن نذر آتش کرنے کے عمل کو نہایت مکروہ سمجھتا ہوں، جیسے کہ پیغمبر محمد کے گستاخانہ کارٹونز، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انگلینڈ ایک ایسا ملک ہے، جہاں توہینِ مذہب اور توہین آمیز تحریروں جیسے قرونِ وسطیٰ کے قوانین ختم کیے جا چکے ہیں۔

عدالتی فیصلے کے بعد کوسکن نے سوال کیا: ’اگر میں ویسٹ منسٹر ایبی کے باہر بائبل کو آگ لگا دیتا تو کیا مجھے سزا دی جاتی؟ مجھے شک ہے۔‘

شیڈو جسٹس سیکرٹری رابرٹ جینرک نے کہا کہ یہ فیصلہ غلط ہے کیونکہ یہ آزادی اظہار کو خطرے میں ڈالتا ہے: ’یہ ایسا ہے جیسے توہینِ مذہب کا قانون دوبارہ لاگو کر دیا گیا ہو، حالانکہ پارلیمان نے اسے ختم کردیا تھا۔ مجھے ’ٹو ٹایئر کیئر‘ (دوہرا معیار رکھنے والے کیئر سٹارمر) پر اعتماد نہیں کہ وہ عوام کے حقوق کا دفاع کریں گے کہ وہ تمام مذاہب پر تنقید کر سکیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جج نے واضح کیا کہ صرف قرآن کو نذرِ آتش کرنا قابلِ سزا نہیں تھا، بلکہ دیگر عوامل بھی تھے۔ پراسیکیوشن نے دلیل دی کہ کوسکن کے اقدامات ’عوامی نظم و ضبط کے لیے حقیقی خطرہ‘ تھے جبکہ مدعا علیہ نے پولیس تفتیش کے دوران اسلام مخالف بیانات دیے تھے۔

مجھ سمیت برطانیہ میں بڑھتی ہوئی مسلم آبادی اپنے عقیدے کو بہت عزیز رکھتی ہے، لیکن دوسرے لوگ جدید برطانیہ میں اسلام کی موجودگی اور قدامت پسند مذہبی عقائد کے وسیع معاشرے پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں پریشان ہیں۔

کوسکن کو مجرم قرار دینے سے یہ تاثر مضبوط ہوگا کہ برطانیہ کے کثیرالثقافتی نظام میں اسلام کو خصوصی رعایت دی جاتی ہے اور اس سے معاشرے میں اسلام مخالف تعصبات مزید شدت اختیار کریں گے۔ اس کے برخلاف کہ یہ فیصلہ ’تنوع کے نظم‘ کے حق میں ہے، اس سے سماجی ہم آہنگی مزید متاثر ہو سکتی ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ یہ فیصلہ قرآن کو نذرِ آتش کرنے جیسے واقعات میں اضافہ کرے، جو کہ برطانیہ میں شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے سکینڈینیوین ممالک میں حالیہ دنوں میں آزادی اظہار اور مذہبی تحاریر کی بےحرمتی کے درمیان کشمکش کھل کر سامنے آئی ہے۔

سویڈن، جہاں اظہارِ رائے کی آزادی کے سخت قوانین موجود تھے اور جہاں توہینِ مذہب کے قوانین 1970 کی دہائی میں ختم کیے گئے، وہاں بھی قرآن نذرِ آتش کرنے کے معاملات پر لوگ سزا پا چکے ہیں۔ ان میں عراقی نژاد اسلام مخالف پناہ گزین سلوان مومیکا بھی شامل تھے، جنہیں جنوری میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا اور ان کی موت کو القاعدہ نے سراہا۔

دریں اثنا، ڈنمارک نے قرآن نذرِ آتش کرنے کے واقعات روکنے کے لیے ایک قانون منظور کیا ہے، جس کے تحت مذہبی تحاریر کے ساتھ ’نامناسب سلوک‘ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اب قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ یہ ایک بڑا یو ٹرن تھا، کیونکہ صرف چند سال قبل ہی پارلیمنٹ نے 334 سال پرانا توہینِ مذہب کا قانون منسوخ کیا تھا۔

برطانیہ میں، اب اسی طرح کے قوانین کو دوبارہ متعارف کروانے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے، جس میں برمنگھم ہال گرین اور موسلی کے لیبر قانون ساز طاہر علی نے گذشتہ سال کیئر سٹارمر سے تمام مذہبی کتابوں اور ابراہیمی مذاہب کے انبیا کی بے حرمتی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔

وزیراعظم نے طاہر علی کی تجویز کی حمایت کا وعدہ نہیں کیا، نہ ہی انہوں نے اسے مسترد کیا۔

انگلینڈ اور ویلز میں توہین مذہب کے قوانین کو 2008 میں لیبر حکومت نے ختم کر دیا تھا، لیکن بعض اوقات یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ایک خاص حق خطرے میں ہے، جس کے نتیجے میں اس کا زیادہ استعمال ہوتا ہے۔

یہ فیصلہ مذہب مخالف بغاوت کو بڑھاوا دے گا، نہ کہ اسے کم کرے گا، جو کہ ایک مثالی نتیجہ نہیں ہے، خاص طور پر مذہبی سماجی قدامت پسندوں کے لیے۔

حقیقت یہ ہے کہ انگلینڈ ایک ایسا ملک ہے جس کا ایک باضابطہ چرچ ہے، جو اپنی مذہبی اقلیتوں کو بہت سی آزادیوں اور حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔

برطانوی مسلمان بہت سے ایسے مواقع، حقوق اور تحفظات سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو دیگر یورپی ممالک جیسے فرانس میں ان کے ہم مذہبوں کو حاصل نہیں ہیں، جہاں پانچویں جمہوریہ کی عسکریت پسند سیکولر عالمگیریت اس کی مسلم برادریوں کے لیے ناقابلِ تردید طور پر جابرانہ ہے۔

چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ، بادشاہ چارلس سوم، بلاشبہ مغربی دنیا میں اسلام کے سب سے بڑے حامیوں میں سے ہیں۔ انہوں نے یورپی نشاۃ ثانیہ میں مسلمانوں کی خدمات کو سراہا، اسلامی مالیات کی تعریف کی اور اسلام کے ماحولیاتی تحفظ کے نظریات کو سراہا۔

لیکن ان میں سے کسی بات کو بھی یقینی یا مستقل نہ سمجھا جائے، حالات کا توازن اس حد تک نہیں بگڑنا چاہیے کہ ہماری آزاد جمہوریت میں منظم مذہب سے اختلاف اور اس کے خلاف ریلی کو عدالتوں کے ذریعے دبایا جانے لگے۔

حقیقت یہ ہے کہ مذہبی آزادی کا تحفظ توہینِ مذہب کے حق سے مشروط ہے، یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں۔ انگلینڈ میں  مسلمان دعوتِ دین کا حق رکھتے ہیں اور اسے پھیلانے یعنی دعوت دینے کی آزادی حاصل ہے۔

اس میں دیگر مذاہب پر تنقید کرنا اور ان کے بنیادی عقائد کو چیلنج کرنا شامل ہو سکتا ہے، جیسے کہ مسیحیت میں تثلیث اور تجسم (یعنی خدا کا انسانی روپ اختیار کرنا) کے عقائد، یا ہندو مت جیسے کثیر خداؤں والے مذاہب میں بت پرستی۔

غیر مسلم مذاہب کے مخلص پیروکار اسے اپنے عقیدے کی سخت توہین، بلکہ توہینِ مذہب سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن یہی معاشرتی معاہدے کا حصہ ہے: مذہبی آزادی کے ساتھ یہ ذمہ داری بھی آتی ہے کہ انسان یہ قبول کرے کہ دوسرے لوگ اُس کے مذہب کے ساتھ ایسے انداز میں پیش آ سکتے ہیں جو اُسے ناپسند ہو، حتیٰ کہ وہ اسے انتہائی توہین آمیز بھی سمجھ سکتا ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ مذہبی سماجی قدامت پسند، خاص طور پر مسلمان کمیونٹیز میں، یہ تسلیم کریں کہ اظہارِ رائے کی آزادی جدید برطانیہ میں اسلام کی دشمن نہیں، بلکہ اس کی دوست ہے۔ یہ ہماری کثیر المذاہب معاشرت میں بین المذاہب تعلقات کے لیے ایک بڑی پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ