رواں ماہ کے اوائل میں عدالت میں جج کے فیصلے کا انتظار کرتے ہوئے فلسطین کی حمایت میں ’غیر قانونی‘ احتجاج کرنے والی سنگاپور کی تین خواتین سخت ردعمل کی توقع کر رہی تھیں۔
ایسے ملک میں رہتے ہوئے جہاں عدالت تک پہنچنے والے مقدمات میں سزا پانے کی شرح 97 فیصد تک ہے اور جہاں عوامی احتجاج اور سرگرمیوں کے لیے بہت کم برداشت ہے، ستی امیرہ محمد اسوری، کوکیلا انامالائی اور موسممد سوبیکن نحر ایک مجرمانہ فیصلہ سننے کی توقع کر رہی تھیں اور انہیں چھ ماہ تک قید اور 10 ہزار سنگاپوری ڈالر جرمانے کا سامنا تھا۔
انہیں سنگاپور کے سخت پبلک آرڈر ایکٹ کے تحت ’غیر قانونی جلوس‘ نکالنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن 21 اکتوبر کو جج جان نگ نے انہیں حیران کن طور پر بری کر دیا۔
ان خواتین نے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے اس فیصلے کو ایک ناقابل یقین فتح قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ملک کی شہری زندگی کے منظرنامے کے لیے خاموشی سے تبدیلی لا سکتا ہے۔
فروری 2024 میں، ان سرگرم کارکنوں نے تقریباً 70 افراد کی قیادت کی جو سڑکوں پر پرامن مارچ کے ذریعے صدر کے دفتر تک خطوط پہنچانا چاہتے تھے جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ سنگاپور اسرائیل سے تعلقات ختم کرے کیونکہ غزہ کی جنگ میں 69 ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ فلسطین میں جنگ سنگاپور میں ایک حساس مسئلہ بن گئی ہے کیونکہ ملک میں بڑی تعداد میں نسلی ملائی مسلمان آباد ہیں جب کہ حکومت کے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
37 سالہ انامالائی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’میں سب سے زیادہ ڈری ہوئی تھی کہ ہمیں سزا ملے گی۔ اس لیے میں نے عدالت میں ممکنہ سزا سننے کے بعد ایک بیان تیار کیا تھا کہ کس طرح نظام خراب ہے یا جو بھی وہ محسوس کر سکتی تھیں۔‘
استغاثہ نے دلیل دی کہ یہ مارچ غیر قانونی تھا کیونکہ اگرچہ وہ بظاہر عوامی فٹ پاتھ پر چل رہے تھے، ان کا راستہ استانا یعنی سنگاپور کے صدارتی محل کے بیرونی دائرہ کار کے ایک ممنوعہ علاقے سے گزرا۔
تاہم جج نگ نے اپنے فیصلے میں نوٹ کیا کہ اس سڑک پر ممنوعہ علاقہ ہونے کا کوئی نشان آویزاں نہیں تھا اور استغاثہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ خواتین جان بوجھ کر غیر قانونی کام کر رہی تھیں۔ یہ ایک اہم تکنیکی نکتہ تھا جس نے فیصلے کا توازن بدل دیا۔ عدالت میں کا عالم ٹوٹ گیا اور ان خواتین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
انامالائی کے مطابق: ’یہ ایک بہت عجیب حقیقت تھی کہ ہم عدالت میں تکنیکی اور قانونی دلائل پر بحث کر رہے تھے جب کہ جو ہم نے کیا وہ فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی میں تھا۔‘
خواتین نے کہا کہ وہ احتجاج کرنے پر مجبور ہوئیں کیونکہ سنگاپور اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے حالانکہ اقوام متحدہ کی تحقیقات میں غزہ میں نسل کشی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ ’بطور سنگاپور شہری ہمیں یہ ناگوار اور اشتعال انگیز محسوس ہوا۔‘
26 سالہ نحر، تینوں میں سب سے کم عمر، کے لیے یہ تحریک سیاسی جتنی اخلاقی تھی۔ انہوں نے کہا: "دنیا اور اردگرد کے لوگوں کے ساتھ ایک فطری ذمہ داری کا احساس ہے، خاص طور پر غزہ میں لوگوں کے لیے جو بے حد مصیبت میں ہیں۔ جو ضروری ہے، وہ کرنا چاہیے۔"
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ان کے اقدامات کا مقصد شہرت حاصل کرنا نہیں تھا لیکن انہیں توقع نہیں تھی کہ اس پر خبریں بنیں گی۔
نحر کہتی ہیں کہ انہیں اس یقین سے تحریک ملی کہ سنگاپور میں مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جہاں بہت سے لوگ سیاسی طور پر شامل ہونے یا ریاست سے جواب دہی کا مطالبہ کرنے کے بارے میں غیر یقینی ہیں۔
خواتین کے بری ہونے کے فیصلے نے ایک ایسے معاشرے میں مزاحمت اور حوصلے کے بارے میں بحث کو جنم دیا ہے جو اختلاف رائے پر سخت پابندی کے لیے جانا جاتا ہے۔ انامالائی کہتی ہیں کہ عوام پر واقعی اثر ڈالنے والی بات صرف یہ فیصلہ نہیں تھا بلکہ وہ موقف تھا جو تینوں خواتین نے مقدمے کے دوران برقرار رکھا۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ انہوں نے عدالت کے دوران براہ راست سنگاپور اور اسرائیل کے تعلقات پر بات نہیں کی لیکن عدالت میں فلسطینی پرچم کے رنگ اور کفیہ شال پہننے کا انتخاب اس کا اشارہ تھا اور ان کی لباس ایک احتجاجی عمل بن گیا۔
انامالائی کہتی ہیں: ’آپ جو بیان دے سکتے ہیں وہ صرف عدالت میں پہنے جانے والے کپڑوں کے ذریعے بھی ممکن ہے۔ مین اسٹریم میڈیا تصاویر لے گا اور مضمون میں استعمال کرے گا۔ یہی وہ واحد پیغام ہے جو آپ بھیج سکتے ہیں۔ ہم کفیہ اور فلسطینی پرچم کے رنگ پہنیں گے۔ اپنی مخالفت ظاہر کرنے کے لیے یہی ہماری آواز ہے۔‘
ان کے بقول: ’میرے خیال میں اس کیس میں بہت سے لوگوں کو جو چیز متاثر کر رہی ہے وہ ہمارا دکھایا گیا عزم ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انامالائی کہتی ہیں کہ یہ عزم اور ہمت ان کی تحریک کے لیے بہت اہم توانائی فراہم کرتی ہے۔ سنگاپور کی شہری سوسائٹی میں عام طور پر لوگ طاقتور یا حکومتی اہلکاروں سے صرف اپیل کرتے ہیں، لیکن ان کی مخالفت یا مزاحمت کرنے کی عادت کم ہی پائی جاتی ہے۔
سرگرم کارکنوں نے کہا کہ ان کا یہ مقدمہ سنگاپور میں اختلاف رائے کو معمول بنانے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔
انامالائی کہتی ہیں: ’ہم ایک ایسی روایت ٖٖڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں عوام متحرک ہو سکیں۔‘
نحر، انامالائی اور اسوری کے لیے یہ مقدمہ صرف ایک قانونی لڑائی نہیں تھا۔ یہ اس بات کا اظہار تھا کہ وہ اپنے عقائد پر قائم رہنا چاہتی ہیں اور دکھانا چاہتی ہیں کہ سنگاپور میں پرامن مزاحمت کا ابھی بھی اہم اور حقیقی مطلب ہے۔
اگرچہ تینوں خواتین کی بریت صرف ایک مخصوص مقدمے تک محدود ہے لیکن سنگاپور کے نوجوان اسے ایک مضبوط اور سخت نظام میں چھوٹی لیکن اہم تبدیلی یا علامتی کامیابی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ان کے حامیوں نے کہا ہے کہ تینوں خواتین نے یہ ثابت کر دیا کہ اختلاف رائے ہمیشہ سزا یا سزاؤں پر ختم نہیں ہوتا، اور یہ بھی کہ چھوٹے چھوٹے احتجاج یا مزاحمتی اقدامات بھی معاشرتی یا سیاسی تبدیلی لا سکتے ہیں۔
ماضی پر نظر ڈال کر وہ امید کرتی ہیں کہ ان کی بریت دوسروں کو یہ دکھائے گی کہ ڈر کے بغیر مزاحمت کی جا سکتی ہے اور اجتماعی حوصلہ اپنایا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ انامالائی کہتی ہیں: ’پچھلے ڈیڑھ سال میں سب سے بڑا فرق یہ ہوا کہ سنگاپور کے عوام واقعی اختلاف رائے ظاہر کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک نئی بات ہے۔ یہ دکھاتا ہے کہ مخالفت کو ایک حکمت عملی کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے اور اب وہ زمانہ گزر چکا ہے جب لوگ صرف طاقتوروں سے اپیل کر کے تبدیلی کی امید رکھتے تھے۔
وہ مزید کہتی ہیں: ’یہ فتح بہت اہم ہے۔ یہ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ لڑائی جاری رکھنا ضروری ہے، چاہے نظام ہمارے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔‘
© The Independent