امریکی صدر کو اسرائیلی پارلیمان میں احتجاج کا سامنا

ٹرمپ کے خطاب کے دوران احتجاج کرنے والوں کو سکیورٹی اہلکاروں نے فوراً ایوان سے باہر نکال دیا، جس کی امریکی صدر نے تعریف کی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پیر کو اسرائیلی پارلیمان (کنیسٹ) سے خطاب کے دوران ارکان کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔

شور شرابے کے دوران ارکان پارلیمان اوفر کاسیف اور ایمن عودہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت پر امریکی حمایت کے خلاف اور فلسطین کو تسلیم کرنے حوالے سے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔

سپیکر نے دونوں ارکان کو ایوان سے باہر نکال دیا، جس پر ٹرمپ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’یہ بہت مؤثر کارروائی تھی۔‘

اس موقعے پر صدر ٹرمپ نے کنیسٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ثالثی میں طے پانے والا غزہ امن معاہدہ ’نئے مشرق وسطیٰ کے تاریخی سورج طلوع‘ کی علامت ہے۔

انہوں نے مزید کہا ’کئی سالوں کی نہ ختم ہونے والی جنگوں اور مستقل خطرات کے بعد آج آسمان پرسکون ہیں، بندوقیں خاموش ہیں، سائرن تھم چکے ہیں اور سورج ایک ایسے مقدس خطے پر طلوع ہو رہا ہے جہاں آخرکار امن قائم ہوا ہے۔‘

’یہ صرف جنگ کا خاتمہ نہیں بلکہ نئے مشرق وسطیٰ کے تاریخی آغاز کی صبح ہے۔‘

ٹرمپ نے اسرائیلی قانون سازوں سے کہا کہ ان کا ملک اب میدان جنگ میں کچھ حاصل نہیں کر سکتا، لہٰذا اسے مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کی طرف بڑھنا چاہیے۔

’آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی کہ یہ وہ لمحہ تھا جب سب کچھ بدلنا شروع ہوا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا ’اسرائیل نے، ہماری مدد سے، میدان جنگ میں جو کچھ ممکن تھا، وہ سب حاصل کر لیا۔

’آپ جیت چکے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ان فتوحات کو امن اور خوشحالی میں بدلا جائے۔‘

ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ امریکہ غزہ کی تعمیر نو میں مدد کرے گا، جو جنگ کے دوران تباہ ہو چکا ہے۔

انہوں نے فلسطینیوں سے اپیل کی کہ وہ ہمیشہ کے لیے ’دہشت اور تشدد‘ کی راہ ترک کر دیں۔‘

انہوں نے ایران کے ساتھ بھی مصالحت کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ’دوستی اور تعاون کا ہاتھ ہمیشہ بڑھا ہوا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا