بڑے حادثے میں واحد بچنے والوں پر کیا گزرتی ہے؟

بڑے سانحے میں زندہ بچ جانا بظاہر ایک ’معجزہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ مگر ایسے واقعے کا اکیلا زندہ بچ جانے والا ہونا کیسا تجربہ ہوتا ہے؟

13 جون 2025 کو احمد آباد میں ہوائی اڈے کے قریب رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہونے کے بعد ایئر انڈیا کی پرواز 171 کے ملبے کی تصویر (اے ایف پی)

وشواش کمار رمیش، جو ایک برطانوی شہری ہیں اور جمعرات کے روز ایئر انڈیا کی ایک پرواز کے ذریعے انڈیا سے لندن واپس آ رہے تھے کہ ان کا طیارہ اڑتے ہی تباہ ہو گیا اور وہ زندہ بچنے والے واحد شخص قرار پائے۔

ان کے بھائی نیان کے مطابق حادثے کے ملبے سے نکلنے کے چند لمحے بعد ویڈیو کال پر اپنے خاندان سے بات کرتے ہوئے رمیش نے کہا، ’مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں کیسے زندہ ہوں۔‘

رمیش کے ایک اور بھائی، اجے، جو طیارے میں دوسری نشست پر سوار تھے، حادثے میں جان سے گئے۔

بوئنگ 787-7 ڈریم لائنر طیارہ احمد آباد شہر سے پرواز کے ایک منٹ سے بھی کم وقت بعد ایک میڈیکل کالج پر گر کر تباہ ہو گیا، جس میں 229 مسافر اور 12 عملے کے ارکان مارے گئے۔ زمین پر موجود کم از کم پانچ افراد بھی جان سے گئے۔

اتنے بڑے سانحے میں زندہ بچ جانا بظاہر ایک ’معجزہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ مگر ایسے واقعے کا اکیلا زندہ بچ جانے والا ہونا کیسا تجربہ ہوتا ہے؟

سانحے میں زندہ بچنا

ماضی کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سانحے کے زندہ بچ جانے والے افراد شدید جذباتی کیفیت سے گزرتے ہیں، جن میں غم، بے چینی، نقصان اور بےیقینی کے احساسات شامل ہوتے ہیں۔

یہ غیر معمولی صورت حال میں پیدا ہونے والے عمومی ردِعمل ہیں۔

کچھ افراد اس تجربے کے بعد ’بعد از صدمہ ذہنی تناؤ (Post-Traumatic Stress Disorder — PTSD) کا شکار ہو سکتے ہیں، اور اتنے بڑے سانحے کے بعد نئی حقیقت سے ہم آہنگ ہونا ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ بعض کو جسمانی زخموں سے صحت یاب ہونے میں بھی وقت لگتا ہے۔

زیادہ تر لوگ اپنی ذاتی قوت اور اردگرد کے لوگوں کے تعاون سے وقت کے ساتھ بہتر ہو جاتے ہیں۔ سانحوں کے بعد مستقل اور طویل مدتی مسائل کی شرح عموماً دس میں سے ایک سے بھی کم ہوتی ہے۔

مگر اکیلا زندہ بچ جانے والے کو نفسیاتی طور پر کہیں زیادہ پیچیدہ مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔

زندہ بچ جانے والے کا جرم  (Survivor's Guilt)

زندہ بچ جانے والے اکثر یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ کیوں بچ گئے جبکہ دوسرے مر گئے۔

میری دوست گل ہِکس، جنہوں نے 2005 میں لندن انڈر گراؤنڈ بم دھماکوں میں زندہ بچنے کے بعد مجھ سے بات کی، آج بھی کئی سال گزرنے کے باوجود اس واقعے کے جرم کا سامنا کرتی ہیں۔

دھواں بھری بوگی میں وہ آخری شخص تھیں جنہیں زندہ نکالا گیا۔ وہ دونوں ٹانگوں سے محروم ہو گئیں۔ لیکن آج بھی وہ سوچتی ہیں، ’میں کیوں بچ گئی، اور دوسرے کیوں نہیں؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اکیلا زندہ بچ جانے والے کے لیے یہ جرم اور زیادہ شدید ہو سکتا ہے۔ تاہم اکیلے زندہ بچنے کے نفسیاتی اثرات پر تحقیق بہت کم ہوئی ہے۔ زیادہ تر تحقیق اجتماعی سانحوں کے عمومی اثرات پر مرکوز رہی ہے۔

2013 کی ایک ڈاکیومنٹری ’سول سروائیور‘ (Sole Survivor) میں بڑے فضائی حادثات سے بچ جانے والوں نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی کہانیاں تو سنانا چاہتے ہیں مگر دوسروں کے جج کرنے کے خوف سے گھبراتے بھی ہیں۔

اکیلا زندہ بچنا ایک بھاری بوجھ ہوتا ہے۔

1985 کے ایک فضائی حادثے میں زندہ بچنے والے جارج لیمسن جونیئر نے ڈاکیومنٹری میں کہا، ’مجھے نہیں لگتا تھا کہ میں زندہ رہنے کے قابل ہوں۔‘

معنی کی تلاش

سانحے میں زندہ بچنے والوں پر اکثر دباؤ ہوتا ہے کہ وہ بتائیں آخر کیا ہوا، اور بار بار اس صدمے کو یاد کر کے دوسروں کے لیے کہانی سنائیں۔

وشواش کمار رمیش کو حادثے کے بعد میڈیا نے فوری طور پر فلمایا اور انٹرویو کیا۔ مگر انہوں نے اپنے بھائی سے کہا، ’مجھے خود نہیں پتہ میں جہاز سے کیسے نکلا۔‘

اکثر زندہ بچنے والے خود بھی ان سوالات سے گھبراتے ہیں جن کا کوئی جواب نہیں۔

کیا وہ کسی خاص وجہ سے زندہ بچے؟ جب سب مر گئے تو وہ کیوں بچ گئے؟

یہ سوالات ہماری فطری خواہش کا اظہار ہیں کہ ہم اپنی زندگی کے تجربات میں معنی تلاش کریں اور اپنی کہانی کو منطقی بنائیں۔

بعض لوگ ان احساسات کو اس وقت بہتر سمجھ پاتے ہیں جب وہ کسی ایسے فرد سے بات کریں جو خود بھی اس یا ملتے جلتے صدمے سے گزرا ہو۔ مگر اکیلا زندہ بچنے والے کے لیے یہ سہولت بھی میسر نہیں ہوتی، جس سے اس کا تنہائی اور جرم کا احساس مزید بڑھ سکتا ہے۔

زندہ بچنے کے ’جرم‘ سے نمٹنا

زندہ بچنے کا جرم، غم اور نقصان کے اظہار کی ایک صورت بھی ہو سکتی ہے۔

تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ شدید صدمہ جھیلنے والے افراد میں جرم کا احساس عام ہوتا ہے اور یہ ذہنی مسائل (مثلاً شدید بےچینی، نیند کی کمی، یادداشت کے جھٹکے) اور خودکشی کے خیالات کو بڑھا سکتا ہے۔

سانحے کے بعد وقت نکال کر اس صدمے کو سمجھنا اور قریبی دوستوں، خاندان یا مذہبی رہنماؤں سے بات کرنا، ان احساسات سے نمٹنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔

میری دوست گِل بتاتی ہیں کہ ہر سال سانحے کی برسی کے قریب ان کی بے چینی بڑھ جاتی ہے۔

ایسے مواقع غیر متوقع صدمے کے محرکات سے مختلف ہوتے ہیں مگر پھر بھی دکھ اور بے چینی کا سبب بن سکتے ہیں۔

اجتماعی یادگار تاریخوں پر میڈیا کی بھرپور کوریج بھی اس دکھ کو بڑھا سکتی ہے۔

گل ہر سال سات جولائی کو ذاتی یادگاری تقریب منعقد کرتی ہیں، جس میں وہ مرنے والوں کو یاد کرتی ہیں۔

اس قسم کے ذاتی رسم و رواج دکھ اور جرم کے احساس کو سمجھنے اور قبول کرنے میں مدد دیتے ہیں، اور فرد کو اپنی کیفیت پر کچھ اختیار اور معنی کا احساس فراہم کرتے ہیں۔

مگر اگر یہ احساسِ جرم اور بےچینی مسلسل رہے اور روزمرہ زندگی متاثر کرے، تو اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

مسلسل زندہ بچنے کا جرم، بعد از صدمہ علامات میں شدید اضافے کا باعث بنتا ہے۔

زندہ بچ جانے والے افراد کے لیے ماہرِ نفسیات یا ذہنی صحت کے پیشہ ور افراد کی مدد لینا، فوری اور طویل مدتی دونوں حوالوں سے، فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر پہلے دی کنورسیشن پر چھپی تھی، اور اس کا ترجمہ کری ایٹو کامنز کے تحت پیش کیا جا رہا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مشتمل ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ