’جنگ آزادی کے لیے اپنی جان پیش کرنے پر یہ تصدیقی سند شکریے کے ساتھ دوستی کی یادگار اور آئندہ کے دوستانہ تعلقات کے لیے دی جاتی ہے۔‘
جنرل الطارق نے یہ سند آخوند موسیٰ کو 1948 کے دوران دی تھی جب تراگبل، زوجیلہ اور پدم کے اطراف میں مقامی جنگجو، گلگت سکاؤٹس اور آزاد فورس نہایت سرد موسم میں آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔
جنرل الطارق دراصل جنرل محمد اکبر خان کا خفیہ جنگی کوڈورڈ تھا جو اس وقت کشمیر آپریشن کے انچارج تھے۔ اس جنگ کا تذکرہ جنرل اکبر کی اپنی کتاب Raiders in Kashmir اور زیادہ تفصیل میں جی ایچ کیو سے شائع شدہ دستاویزی کتاب The Kashmir Campaign میں کیا گیا ہے۔
آخوند محمد موسیٰ کی خدمات کی تصدیق پر صرف یہ ایک سند نہیں بلکہ اس جنگ کے اہم کردار گروپ کیپٹن شاہ خان کی گواہی بھی موجود ہے۔
شاہ خان اسکیمو فورس کے کمانڈر تھے جو چلم چوکی استور سے مقامی عسکریت پسندوں اور سکاؤٹس کی نفری لے کر فروری کے موسم میں نقطہ انجماد سے نیچے درجہ حرارت کے دوران 14000 فٹ بلند دیوسائی کے میدان کو عبور کر کے گلتری اور دراس کی طرف گئے۔
اس فورس کی مدد بھی آخوند محمد موسٰی نے اپنے قبیلے کے تعاون سے سرانجام دی۔ ان خدمات کا اعتراف شاہ خان نے ایک سے زیادہ دستاویزات میں کیا ہے۔
انہوں نے ایک تعریفی سند میں لکھا کہ ’آخوند موسیٰ کو افواج پاکستان کے لیے خدمات سر انجام دینے پر چالیس روپے نقد انعام اور سند نامہ دیا جاتا ہے، انہیں کاربیگار سے بھی مستثنیٰ قرار دیا جاتا ہے۔‘ ساتھ ہی کمانڈر آزاد فورس کارگل لکھ کر شاہ خان کے دستخط ثبت ہیں۔
سابق ڈپٹی چیف اور سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی فدا محمد ناشاد کے مطابق ان کی جب گروپ کیپٹن شاہ خان سے ملاقات ہوئی تھی تو جنگ آزادی کی تفصیل بتاتے ہوئے شاہ خان نے آخوند محمد موسیٰ کا نام کئی بار لیا اور ان کی خدمات کی زبردست تعریف کی تھی۔
آخوند محمد موسٰی صرف انہی حوالوں سے اپنی پہچان نہیں رکھتے ہیں بلکہ علم و ادب، سماجی خدمت اور اصلاحی فیصلوں کے حوالے سے بھی بڑی شہرت رکھتے تھے۔
آخوند محمد موسیٰ کے بیٹے غلام علی، غلام مصطفیٰ، محمد عبداللہ، محمد اسحاق، انجینئر احسان علی اور ڈاکٹر مظفر حسین ہیں جبکہ چار بیٹیاں بھی ہیں۔
آخوند موسیٰ کی عمر کا زیادہ تر حصہ درلہ گاؤں میں گزرا جو موضع داسخرم استور میں شامل ہے۔ یہاں ان کا خاندان 1916 سے پہلے شنگوشغر سے آکر آباد ہوا تھا۔
غلام مہدی ظہیری مرحوم بیس سال سے زائد عرصہ لندن میں مقیم رہے، انہوں نے 1999 میں آخوند موسیٰ کے صوفیانہ کلام کو ’استخالئی شرو‘ کے نام سے شائع کیا۔
اس کتابچے کے مطابق آخوند موسیٰ کی تاریخ پیدائش 1895 میں منی مرگ استور کے گاؤں نگیئی میں ہوئی اور وہاں سے بعد ازاں ان کا خاندان درلہ داسخرم منتقل ہوا۔
1970 کی دہائی میں آخوند موسیٰ اپنے قبیلے کے دوسرے افراد کے ساتھ سکردو آئے اور یہیں حاجی گام میں آباد ہوئے۔
آخوند موسیٰ نے ذہبی تعلیم چونگرہ استور میں حاصل کی اور بعد ازاں اپنی ذاتی لیاقت، مطالعہ اور پھر صاحب علم افراد کے ساتھ بودوباش اختیار کر کے بہت کچھ سیکھ لیا۔
ان کی ملی خدمت، علم و فضل اور صاحب بصیرت پہلو کی وجہ سے نہ صرف موضع داسخرم بلکہ پورے استور میں ان کا سماجی مرتبہ و مقام بلند تھا۔
گاؤں گاؤں کے معاشرتی اور سماجی تنازعات کے حل اور ثلاثت کے لیے ان سے کمیونٹی کی سطح پر رجوع کیا جاتا تھا جبکہ شرعی معاملات میں بھی رہنمائی کا فرض سرانجام دیتے رہے۔
علاقے سے کار بیگار، ظالمانہ لگان اور مالیہ کے خلاف بھی پوری شدومد کے ساتھ صف آرا رہے اور بڑے بڑوں سے مخالفت مول لی بلکہ اپنے علاقے میں نافذ راجگان کے کار بیگار کے خلاف سری نگر کشمیر جا کر کیس لڑا اور جیت بھی گئے۔
سکردو آنے کے بعد بھی ضعیفی کے باوجود نہ صرف متحرک رہے بلکہ مختلف لوگ ان سے سماجی معاملات کے لیے صلاح و مشورہ کرتے تھے۔
دنیاوی معاملات سے نبرد آزما ہونے کے ساتھ ساتھ آخوند موسیٰ فکری اور باطنی راہ پر بھی آبلہ پا رہے جو ان کے شعری ذوق میں صاف دیکھا جاسکتا ہے۔
اب تک ان کے شنا کلام کے جو چند نمونے دستیاب ہوئے ہیں ان میں ان کے ذہنی اور قلبی میلانات کا برملا اظہار ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چونکہ ان کی پرورش ایک مذہبی گھرانے میں ہوئی اور وہ خود بھی دینی تعلیم کے شائق رہے ہیں لہذا اس کےاثرات ان کے کلام میں جا بجا واضح طور پر نظر آتے ہیں۔
ان کے کلام کے نفس مضمون میں مذمت دنیا اور انسان کے سود و زیاں کا تذکرہ زیادہ شدت سے دکھائی دیتا ہے۔
’دنیا تئیی سلوٹیے‘ کے عنوان سے ان کے کلام میں 30 اشعار ہیں جن کا آغاز دنیا کی حشر سامانی اور اس میں انسان کی بے پناہ رغبت و محویت کے ذکر سے ہوتا ہے۔
آخوند موسیٰ نے دنیا کی بوقلمونیوں کو ایک جال سے تشبیہ دی ہے جس میں انسان خود اپنے ہاتھوں پھنستا چلا جاتا ہے۔ ان کے مطابق اس بے خبری میں انسان اچھے برے کی تمیز اور اخلاقی معیارات کو نہ صرف فراموش کر بیٹھتا ہے بلکہ ھل من مزید کی بےجا مقابلہ جاتی دوڑ میں اس کی سانسیں اکھڑ جاتی ہیں، وہ اپنی ذات کو بھی بھول جاتا ہے تاآنکہ رفتار زمانہ اسے بڑھاپے میں دھکیل دیتا ہے۔
یہاں پر بڑھاپا صرف اعضائے رئیسہ کے مضمحل ہونے کا نام نہیں بلکہ انسانی طلب کی شکست خوردگی اور پسپائی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ تمنا جب حرص و ہوس بن جاتی ہے تو پھر اس کا اختتام کہاں ممکن ہے۔
اسی کلام کے آخر میں آخوند موسیٰ نے انسان کو مسافر اور جز وقتی مہمان قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح ایک مسافر طویل سفر کے لیے ہمیشہ زاد راہ کم باندھ لیتا ہے تاکہ راستے میں بوجھ نہ لگے اسی طرح اے غافل انسان زندگی میں کم مال و متاع سمیٹ لے تاکہ آخری سفر دشوار نہ ہوں۔
آخوند محمد موسیٰ نے 28 مئی 1980 کو حاجی گام محلے میں اس فانی دنیا سے رخت سفر باندھ لیا اور قتل گاہ شریف سکردو میں محو استراحت ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔