فلم جوان جب کشمیر پہنچی

جموں و کشمیر میں تفریح کے ذریعے ناپید ہیں، میڈیا چینلوں پر عام لوگوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، ایسے میں شاہ رخ خان کی اداکاری دیکھنے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں۔

شاہ رخ خان کی نئی فلم جوان سات ستمبر، 2023 کو دنیا بھر میں ریلیز ہوئی (شاہ رخ خان/انسٹاگرام)

’بیٹے کو ہاتھ لگانے سے پہلے باپ سے پوچھ لیا تھا؟‘

فلم جوان کے اس مکالمے پر نہ صرف انڈیا کے سینیما ہال گونج رہے ہیں، بلکہ کشمیر کے سینیما ہال میں فلم بین رقص کرکے اس کا لطف لے رہے ہیں۔

رقص اور ہنگامہ دیکھ کر سینیما کے باہر گشت پر مامور سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی چکرا جاتے ہیں۔

یہ کالم آپ یہاں سن سکتے ہیں:

کشمیر میں خوشی یا شورش کے جذبات کا اندازہ لگانا ہمیشہ مشکل رہا ہے۔ بیشتر مرتبہ رقص اور ہنگاموں کے دوران جب آزادی کی آواز سنائی دیتی ہے تو پھر اس کو دبانے میں کافی وقت، وسائل اور سرمایہ درکار ہوتا ہے۔

بولی وڈ اداکار شاہ رُخ خان کے لاکھوں مداح کشمیر میں موجود ہیں۔ چند برسوں میں وہ کئی بار وادی کا رخ کرچکے ہیں مگر شائقین کا کشمیر سے متعلق بولی وڈ فلموں کے بارے میں یہ عام تاثر ہے کہ وہ سرکاری بیانیے کو آنچل میں تھامے رکھتی ہے، جن میں شاہ رخ اور سلمان خان کی فلمیں شامل ہیں۔

ان میں کشمیریوں کی خواہشات کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ تین دہائیوں کے پرآشوب دور میں کشمیر کے تمام سینیما گھر بند یا جلائے گئے تھے یا سکیورٹی فورسز کے مسکن بنے تھے۔

سینیما، شراب، تفریح، منشیات اور بعض مشروبات کے استعمال پر سن نوئے میں ایک مہم بھی چلی تھی جس کو بعد میں عالمی سطح پر طالبان سوچ بتا کر تحریک آزادی کو اسلامی تحریک میں تبدیل کرنے میں آسانی پیدا ہوگئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سینیما آئی ناکس کے مالک وجے دھر نے چند برس پہلے فوجی چھاؤنی والے علاقے سنوار میں ایک سینیما شروع کیا، جس میں آج کل فلم بینوں کی اچھی خاصی تعداد موجود رہتی ہے۔

فلم جوان کو دیکھنے کے لیے سینیما کی ہاؤس فُل بکنگ بتائی جاتی ہے۔ فلم بین اشوک کول کے مطابق ’ہال تالیوں سے گونجتا رہتا ہے، پہلے کی طرح وہ خوف نہیں جب لوگ چوری چھپے سینیما کا رخ کرتے تھے۔

’آج کل نوجوان بے خوف سینیما جاتے ہیں، اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں اور تفریح حاصل کرنے کی خواہش بھی جتاتے ہیں جو چند برس پہلے تک آزادی کے متوالے سمجھے جاتے رہے ہیں، یہ مودی کی کشمیر پالیسی کا حاصل ہے۔‘

فلم جوان نے انڈیا میں ریکارڈ آمدنی حاصل کی ہے۔ فلم میں عام لوگوں کو اپنے سیاسی نمائندوں سے سوال کرنے اور کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دینے کا درس دیا گیا ہے۔

بیشتر رپورٹوں میں بتایا گیا کہ یہ فلم انڈیا کی موجودہ صورت حال کی عکاسی کرتی ہے جہاں حکمران جماعت یا اعلیٰ حکام سے سوال کرنے کی اجازت ہے نہ کسی وزیر نے عوام کے خدشات کو دور کرنے کے لیے ان کے سوالوں کے جواب دینے کی کبھی ضرورت محسوس کی۔

وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں یہ شکایت عام ہے کہ انہوں نے نو سال کے دور اقتدار میں نہ کبھی پریس کانفرنس کی اور نہ کبھی کسی سوال کا جواب دیا۔

میڈیا میں یہ خبریں گشت کر رہی ہیں کہ فلم جوان نے حکمران جماعت میں خاصی بے چینی پیدا کی ہے جبکہ اپوزیشن کے بیشتر رہنماؤں نے فلم کو موجودہ حالات پر سے پردہ ہٹانے کا ایک بہترین ذریعہ قرار دیا۔

بقول ایک سیاسی کارکن: ’جو کام انڈین میڈیا کو کرنا تھا وہ اب فلم جوان نے کیا ہے، پورا میڈیا حکمران جماعت کی گود میں بیٹھا ہے۔‘

جموں و کشمیر میں تفریح کے ذریعے ناپید ہیں، ٹیلی ویژن سے لوگ اوب گئے ہیں، ایف ایم ریڈیو کے بیشتر سٹیشن چلانے کا لائسنس مقامی لوگوں کے پاس نہیں، میڈیا چینلوں پر عام لوگوں کی نمائندگی نفی کے برابر ہے، ایسے میں شاہ رخ کی اداکاری دیکھنے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں۔

پھر اگر فلم عام لوگوں کے جذبات کی عکاس بتائی جاتی ہے جو اب انڈیا میں شجر ممنوعہ بن گیا ہے تو فلم جوان دیکھنا آکسیجن حاصل کرنے کے مترادف ہے۔

بسکو سکول کے طالب علم عدیر کہتے ہیں کہ ’میں نے پہلے ہی دن فلم جوان دیکھی، فلم دیکھنے کا شوق نہیں تھا مگر گھٹن اور ذہنی دباؤ نے فلم دیکھنے پر مجبور کردیا۔ 

’جب چاروں طرف سے پہرے اور پہرے دار تعاقب کر رہے ہوں ایسے میں نارملسی دکھانے کے لیے اگر شاہ رخ کی اداکاری سے مدد ملتی ہے تو چلیے ہم بھی اس میں شریک ہو کر نارملسی کا ڈرامہ کرتے ہیں لیکن خدارا ہمیں سانس تو لینے دیں۔‘

حکومت کہتی ہے کہ نوجوانوں میں فلم بینی اور اس صنعت سے وابستہ ہونے کی دلچسپی دیکھ کر کئی سینیما گھر قائم کر دیے گئے ہیں جن میں شمالی کشمیر کا وہ سینیما گھر شامل ہے جہاں آج کل فلم جوان دیکھنے کے لیے کافی بھیڑ لگی رہتی ہے۔

لیکن مقامی فلم ایکٹر اور فلم فیسٹیولز کے ڈائریکٹر مشتاق احمد علی خان کہتے ہیں کہ ’دوسری ریاستوں کی فلموں کی شوٹنگ سے مقامی اداکاروں کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا گوکہ حکومت نے تین سال پہلے فلم پالیسی بھی مرتب کی تھی، کشمیر میں فلم فیسٹیولز ہوتے رہے ہیں، ان کو بھی اندرونی خودمختاری ختم ہونے کے بعد  کوئی حمایت یا معاونت نہیں مل رہی۔‘

کشمیر میں خوبصورتی ہے، ٹیلنٹ ہے اور نوجوانوں میں دلچسپی بھی ہے، شاہ رخ خان کی فلمیں بھی ہیں لیکن نہ فلمی صنعت ہے، نہ مواقع ہیں اور نہ سرکاری بیانیے سے ہٹ کر کسی اور بیانیے کو ظاہر کرنے کی اجازت ہے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ