انڈین حکومت کا کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے کے ’ٹائم فریم‘ سے گریز

آرٹیکل 370 کی منسوخی کے معاملے پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران انڈین حکومت نے اپنے زیرانتظام کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کرنے کا مخصوص ٹائم فریم دینے سے گریز کیا، تاہم عدالت کو یہ بتایا کہ وہ کشمیر میں کسی بھی وقت انتخابات کروانے کے لیے تیار ہے۔

انڈین سپریم کورٹ کی عمارت کی یہ تصویر جولائی 2018 میں لی گئی تھی (اے ایف پی)

انڈیا کی مرکزی حکومت نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت کے دوران آج (بروز جمعرات) سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ وہ کشمیر میں کسی بھی وقت انتخابات کروانے کے لیے تیار ہے۔

اگرچہ انڈین حکومت نے اپنے زیرانتظام جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کرنے کے لیے ایک مخصوص ٹائم فریم دینے سے گریز کیا، لیکن اس نے واضح کیا کہ کشمیر کی مرکز کے زیر انتظام علاقے (یونین ٹیریٹری) کی حیثیت عارضی ہے۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق انڈین سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے آج آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

جموں و کشمیر کی نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) سمیت کئی جماعتوں نے انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے پانچ اگست 2019 کے فیصلے کے خلاف پٹیشن میں اعتراض اٹھایا تھا کہ اس غیرآئینی اور غیرقانونی فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ اس میں مقامی قانون ساز اسمبلی کی نہ تو مرضی شامل ہے اور نہ عوام کو اس بارے میں اعتماد میں لیا گیا ہے۔

اس کیس کی 11 جولائی کو ہونے والی پہلی سماعت میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے حوالے سے پٹیشنوں پر دو اگست سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد سے یہ سماعتیں جاری ہیں۔

منگل (30 جولائی کو) سپریم کورٹ نے انڈین حکومت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے کے لیے حکومت سے ٹائم فریم کا تعین کرنے کو کہا تھا اور اس بات پر زور دیا کہ خطے میں جمہوریت کی بحالی ’بہت اہم‘ ہے۔

بینچ نے کہا تھا: ’حکومت کو ہمارے سامنے یہ بیان دینا ہوگا کہ اس (جموں و کشمیر) کو دوبارہ ریاست بنانا چاہیے۔ یہ مستقل طور پر مرکز کے زیر انتظام علاقہ (یونین ٹیریٹری) نہیں رہ سکتا۔۔جمہوریت کی بحالی بہت ضروری ہے۔‘

آج اس کیس کی سماعت کے دوران حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل تشار مہتا نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ووٹر لسٹ کو اپ ڈیٹ کرنے کا عمل کافی حد تک ختم ہوچکا ہے اور انڈیا کے زیرانتظام جموں و کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات، پنچایت انتخابات اور میونسپل انتخابات کے بعد متوقع ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ تاہم یہ ریاستی الیکشن کمیشن اور مرکزی الیکشن کمیشن پر منحصر ہے کہ کون سا الیکشن پہلے ہونا چاہیے۔

وکیل تشار مہتا نے بینچ کو بتایا: ’تین انتخابات ہونے ہیں۔ پہلی بار تین سطحی پنچایت راج نظام متعارف کروایا گیا ہے۔ پہلا الیکشن پنچایتوں کے لیے ہوگا جبکہ ضلع ترقیاتی کونسل کے انتخابات پہلے ہی ہو چکے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کرنے کے لیے ایک مخصوص ٹائم فریم دینے سے متعلق وکیل تشار مہتا نے کہا: ’جہاں تک ریاست کا درجہ دینے کا تعلق ہے، میں پہلے ہی ایک بیان دے چکا ہوں، لیکن اس کے علاوہ پارلیمنٹ کے فلور پر وزیر داخلہ کا بیان ایک عارضی چیز ہے، ہمیں ایک انتہائی غیر معمولی صورت حال کا سامنا ہے۔‘

وکیل نے مزید کہا کہ 2018 کی صورت حال کا 2023 سے موازنہ کریں تو ’دہشت گردی کے واقعات‘ میں 45.2 فیصد اور دراندازی میں 90.2 فیصد کمی آئی ہے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پتھراؤ جیسے واقعات میں 97.2 فیصد اور سکیورٹی فورسز کے جانی نقصان میں 65.9 فیصد کی کمی آئی ہے اور ایجنسیاں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ان عوامل کو مدنظر رکھیں گی۔

نیشنل کانفرنس کے رہنما محمد اکبر لون کی طرف سے پیش ہونے والے سینیئر وکیل کپل سبل نے استفسار کیا کہ کیا عدالت آرٹیکل 370 کی منسوخی کی قانونی حیثیت کو دیکھتے ہوئے ان عوامل کو مدنظر رکھ رہی ہے؟

جس پر چیف جسٹس انڈین سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ بینچ آئینی بنیادوں پر آرٹیکل 370 کی منسوخی کی قانونی حیثیت پر غور کرے گا اور انتخابات یا ریاست کے درجے سے متعلق حقائق اسے متاثر نہیں کریں گے۔

آرٹیکل 370 کا خاتمہ

پانچ اگست 2019 کو ہندو قوم پرست مودی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا اعلان کر کے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیا تھا۔

آرٹیکل 370 جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا تھا، جو کشمیر کے اس خطے کو مختلف شعبوں میں بشمول داخلی حکمرانی، قوانین اور اس کے باشندوں کے لیے جائیداد کے حقوق کے حوالے سے خود مختاری دیتا تھا۔

گذشتہ کئی دہائیوں سے یہ خصوصی حیثیت انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے پاس تھی۔ نریندر مودی کی قیادت میں حکومت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا غیر معمولی قدم اٹھایا اور ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا