بوسنیا اور کوسوو: جنگی جنسی تشدد کے متاثرین جو 30 سال بعد سامنے آئے

بوسنیا بھر میں کم از کم 20 ہزار افراد کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جب یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے سے یورپ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد بدترین جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ زیادہ تر متاثرین بوسنیائی مسلمان تھے، لیکن سرب اور کروشین خواتین بھی اس ظلم کا شکار ہوئیں۔

بوسنیائی مسلمان خاتون باکرہ ہاسچچ 21 مئی 2025 کو سرائیوو میں جنگ کی متاثرین خواتین کی تنظیم میں ایک انٹرویو کے دوران گفتگو کر رہی ہیں (ایلوس باروویک / اے ایف پی)

زہرہ مرگز کو یہ بتانے میں برسوں لگ گئے کہ ان کے ساتھ اور دیگر مسلم خواتین کے ساتھ بوسنیا کی جنگ کے دوران سرب فورسز کے زیرِ انتظام ’ریپ کیمپوں‘ میں کیا ہوا؟

انہیں گواہی دینے پر مجبور کرنے والی ہولناک یادوں میں سے ایک وہ منظر تھا، جب انہوں نے 12 سالہ بچی کو ’گڑیا ہاتھ میں لیے‘ ان کیمپوں میں گھسیٹے جاتے دیکھا۔

مرگز کو محسوس ہوا کہ وہ اپنی گواہی میں ’ان سب کی نمائندگی کر رہی ہیں، اس 12 سالہ بچی کی بھی، جو کبھی بول نہ سکیں، جن کا کبھی پتا نہ چل سکا۔‘

ان کے لیے یہ خوفناک سلسلہ گرمیوں 1992 میں شروع ہوا، جب سرب فورسز نے پہاڑی شہر فوچا پر قبضہ کیا اور مرگز کو پارٹیزان جم لے جایا گیا، جو ان کئی بدنامِ زمانہ ریپ کیمپوں میں سے ایک تھا جنہیں سرب چلا رہے تھے۔

مہینوں تک درجنوں مسلم خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ وہاں اجتماعی زیادتی کی جاتی رہی اور انہیں جنسی غلامی پر مجبور کیا گیا۔ کچھ کو بیچ دیا گیا یا قتل کر دیا گیا۔

بوسنیا بھر میں کم از کم 20 ہزار افراد کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جب یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے سے یورپ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد بدترین جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ زیادہ تر متاثرین بوسنیائی مسلمان تھے، لیکن سرب اور کروشین خواتین بھی اس ظلم کا شکار ہوئیں۔

2001 میں سابق یوگوسلاویہ کے لیے قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت یورپ کی پہلی عدالت بنی، جس نے بوسنیائی سرب فوج کے فوچا سے تعلق رکھنے والے تین افسروں کے خلاف تاریخی فیصلے میں جنسی زیادتی کو انسانیت کے خلاف جرم تسلیم کیا۔

اگرچہ انصاف کی تلاش میں چند زندہ بچ جانے والے لوگ ہزاروں شہادتیں اکٹھی کرتے رہتے ہیں، لیکن تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی بہت سے لوگ خاموشی کی زنجیر میں بندھے ہیں۔

مرگز، جن کی عمر 61 سال ہو چکی ہے، نے اپنا عدالتی سفر اس وقت شروع کیا جب وہ کئی برس مونٹی نیگرو، سربیا اور کروشیا میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے بعد 2011 میں بوسنیا واپس آئیں تاکہ جنگ کے دوران اپنے ساتھ زیادتی کرنے والے پڑوسی کو عدالت کے کٹہرے میں لا سکیں۔

انہوں نے اپنے آپ سے کہا کہ ’اگر میں نہ بولوں گی، تو ایسا ہو گا جیسے یہ جرم کبھی ہوا ہی نہیں۔ وہ اب بھی فوچا میں رہ رہا تھا اور چھپ نہیں رہا تھا۔‘

مذکورہ شخص گرفتار کیا گیا اور 2012 میں مقامی عدالت میں مقدمہ چلا۔ اس وقت کی اذیت کو یاد کرتے ہوئے مرگز نے کہا کہ ’وہاں جانا یوں تھا جیسے پھر 1992 میں پہنچ گئی ہوں۔ میں اس کے بالکل سامنے کھڑی ہوئی۔ ہم نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور انصاف جیت گیا۔‘

مذکورہ شخص کو 14 سال قید کی سزا ہوئی۔ مرگز کے بقول: ’یہ سزا بہت کم ہے، تین افراد کے قتل اور ایک زیادتی کے مقابلے میں۔‘ لیکن آخرکار اس سزا نے ’ان کی اصل شناخت پر مہر ثبت کر دی، یعنی جنگی مجرم۔‘

مرگز نے سرائیوو میں اے ایف پی کو بتایا، جہاں وہ جنگ کے متاثرین کی تنظیم ’فوچا 1992-1995‘ کے زیرِ انتظام سلائی ورکشاپ میں بیٹھی تھیں۔

ان کے اردگرد زندہ بچ جانے والی دیگر خواتین اکٹھے کپڑا بن رہی تھیں، جو ایک طرح کا اجتماعی علاج ہے۔

اس گروپ کی صدر مدحتا کالوپر، جن کی عمر 52 سال ہے، کا کہنا تھا: ’اب تک فوچا میں جنسی تشدد کے جرائم پر صرف 18 فیصلے سنائے جا چکے ہیں۔ تین مقدمات کی سماعت جاری ہے۔ بہت وقت گزر چکا ہے اور گواہ تھک چکے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ خود گورازدے میں ’ایک ایسا ناقابلِ بیان، ناقابلِ فہم جرم‘ کا شکار ہوئیں، جو ’ایک لڑکی کے لیے بدترین اذیت ہے۔‘ انہیں اب بھی امید ہے کہ ملزم پر سربیا کی بجائے بوسنیا میں مقدمہ چلے گا، جہاں وہ اب رہتے ہیں۔

لیکن کالوپر نے خبردار کیا کہ گذشتہ پانچ برسوں میں معاملات ’رک‘ گئے ہیں، کیونکہ ہائی کونسل آف مجسٹریٹس کے اعدادوشمار کے مطابق 258 مقدمات ایسے ہیں، جن میں 2046 ملزمان کے خلاف اب بھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔

او ایس سی ای مانیٹرنگ مشن کے مطابق، بوسنیائی ججوں نے گذشتہ سال کے آخر تک 773 جنگی جرائم کے مقدمات نمٹائے، جن میں ایک چوتھائی سے زیادہ جنسی تشدد سے متعلق تھے۔

مشن نے کہا کہ سینکڑوں دیگر مقدمات میں ’نمایاں تاخیر‘ ہوئی، جن میں ملزموں کی شناخت ابھی تک نہیں ہو سکی۔

کالوپر نے کہا کہ ’جو چیز ہمیں سب سے زیادہ مار دیتی ہے وہ ان کارروائیوں کا حد سے زیادہ طوالت اختیار کرنا ہے۔‘

ان کے بقول: ’ہم 30 برس سے لڑ رہے ہیں، اور ہماری واحد بڑی کامیابی شہری جنگی متاثرین کے لیے قانون بنوانا ہے،‘ جس کے تحت زندہ بچ جانے والوں کو تقریباً 400 ڈالر ماہانہ پنشن دی جا سکتی ہے۔

تاہم، یہ قانون صرف بوسنیا کے مسلم، کروشین حصے اور وہاں رہنے والوں پر لاگو ہوتا ہے، خود مختار سرب علاقے اور شمال مشرق میں واقع چھوٹے مخلوط برچکو کے علاقے پر نہیں، جہاں الگ عدالتی نظام ہیں۔

سوئس قانونی این جی او ٹرائل انٹرنیشنل کی آینا ماہ میچ کے مطابق، مسلم، کروشین فیڈریشن میں تقریباً ایک ہزار بچ جانے والوں نے جنگی متاثرہ فرد کا درجہ حاصل کیا، اور آر ایس اور برچکو میں تقریباً سو مزید افراد نے بھی۔

انہوں نے کہا کہ ریپ اب بھی خاص طور پر بدنامی کا باعث بنتی ہے۔ ’بدقسمتی سے، بطور معاشرہ ہم اب بھی قصور اور شرم کا ذمہ دار متاثرہ فرد کو قرار دیتے ہیں، نہ کہ مجرموں کو۔‘

اے ایف پی سے گفتگو میں ماہ میچ کا کہنا تھا کہ ’بہت سی متاثرہ خواتین خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتیں۔ کچھ مجرم اب بھی آزاد گھوم رہے ہیں اور کچھ سرکاری اداروں میں کام کر رہے ہیں، جن میں سے کچھ بااثر عہدوں پر ہیں۔‘

کالوپر نے مزید کہا کہ ’بلقان میں جنگی مجرموں کی مسلسل قابلِ تعریف اور ہمارے برداشت کیے گئے مصائب کو کم تر دکھانا‘ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

او ایس سی ای کی ایک رپورٹ کے مطابق، جاری مقدمات میں سے تقریباً نصف اس لیے رکے ہوئے ہیں کہ ملزم بیرونِ ملک ہیں۔

او ایس سی ای نے مزید کہا کہ ایک ’تشویشناک رجحان یہ بھی ہے کہ عدالتیں مجرمانہ مقدمات میں متاثرین کو معاوضہ دینے میں بڑے پیمانے پر ناکام رہتی ہیں۔‘

دی ہیگ میں گواہ گمنام رہ کر گواہی دے سکتے ہیں، لیکن بوسنیا میں معاوضے کے دیوانی مقدمات میں ان کی شناخت کے تحفظ کے لیے کوئی شق نہیں۔

خواتین کی متاثرین جنگ کی تنظیم کی سربراہ باکرہ ہاسچچ، جن کی عمر 71 سال ہے، نے کہا کہ ’آج بھی متاثرین کے لیے بولنا بہت مشکل ہے‘ اور اس المیے کا بوجھ ان دل پر ہے۔

بہت سی خواتین ماضی میں اپنے اوپر ظلم کرنے والوں پر سوشل نیٹ ورکس پر نظر رکھتی ہیں۔

باکرہ کے بقول، یہ جذباتی ’ٹائم بم‘ ہے جو کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے، اور ہمیں بعض متاثرین کو فون کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

اگرچہ 30 سال سے زیادہ وقت گزر چکا ہے، تاہم باکرہ ہاسچچ نے کہا کہ صرف پچھلے چند مہینوں میں 15 مزید متاثرہ خواتین سامنے آئیں، جنہیں بات کرنے کی ضرورت تھی۔

مرد متاثرین

رمضان نیشوری کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں کھل کر بات کرنے میں 26 سال لگ گئے۔ وہ کوسوو کی جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر جنسی تشدد کے بارے میں خاموشی توڑنے والے پہلے متاثرہ شخص ہیں۔

تین بچوں کے والد نیشوری کو 1998 اور 1999 میں البانوی چھاپہ ماروں اور سرب مسلح افواج کے درمیان خونریز تصادم کے دوران ایک سربیائی پولیس اہلکار نے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس تصادم کے نتیجے میں بالآخر کوسوو بلغراد سے الگ ہو گیا۔

حکام کا اندازہ ہے کہ اس جنگ میں سرب فورسز نے 20 ہزار خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا، جب کہ 13 ہزار افراد، جن میں زیادہ تر نسلی البانوی شہری تھے، جان سے گئے۔

ہیومن رائٹس واچ نے اپنی 2000 کی رپورٹ میں کہا کہ البانوی جنگجوؤں نے بھی سرب، البانوی اور روما خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ رپورٹ میں فریقین کی طرف سے وسیع پیمانے پر زیادتیوں کی دستاویزات موجود ہیں۔

تاہم کوسوو کے ہیومینیٹرین لا سینٹر کے بیکم بلاکاج کے مطابق، اصل تعداد ایک ’گہری سماجی بدنامی‘ کے باعث اب بھی سامنے نہیں آ سکی، جو جنگی زیادتیوں کو چھپائے ہوئے ہے۔

نیشوری نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ ان کا اپنا ’مشکل‘ سفر، جس نے انہیں بعض اوقات خودکشی کے دہانے تک پہنچا دیا، دوسروں کے لیے بھی حوصلے کا باعث بنے گا کہ وہ جنگ کی ظلمتوں پر روشنی ڈال سکیں۔

48 سالہ نیشوری نے کہا کہ وہ اپنے خاندان کی مدد کے بغیر کبھی سامنے نہ آتے۔ ’اس نے مجھے طاقت دی، اس نے بہت، بہت بڑا کردار ادا کیا۔‘

لیکن وہ جانتے ہیں کہ وہ جنگ، جو صرف تب ختم ہوئی جب نیٹو نے سرب فورسز کو بمباری کر کے جھکنے پر مجبور کیا، اب بھی بہت سے لوگوں کو تنہا جدوجہد پر مجبور کیے ہوئے ہے۔

انہوں نے بتایا: ’میرا دم گھٹ رہا تھا۔ میں رات کے وقت گھر سے نکل جاتا۔ چیخنے کو دل کرتا۔ چلتا اور روتا رہتا۔‘

کوسوو کی حکومت نے جنگی مظالم کے متاثرین کے دکھ کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ہر ماہ 270 یورو (313 ڈالر) پنشن دینے کا اعلان کیا۔ لیکن سہولت دینے کے 11 سال بعد بھی صرف چند سو خواتین کو یہ رقم مل رہی ہے۔ نیشوری یہ رقم حاصل کرنے والے پہلے مرد ہوں گے۔

تاہم، سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ بہت سے متاثرین کبھی سامنے نہیں آئیں گے، کیونکہ البانوی معاشرے میں زیادتی کو بدنامی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔

میڈیکا کوسووا کی ویپروورے شہو، جنہوں نے تقریباً چھ سو متاثرہ خواتین کو نفسیاتی مدد فراہم کی ہے، نے کہا کہ ’ہمارے معاشرے میں زیادتی کو زیادہ تر خاندان کی عزت کی پامالی سمجھا جاتا ہے۔‘

نیشوری کا خوفناک سفر اس وقت شروع ہوا جب انہیں ستمبر 1998 میں دوسرے پناہ گزینوں سے الگ کر دیا گیا۔ انہیں ڈریناس کے ایک تھانے میں تفتیش کے لیے لے جایا گیا، جو پرسٹینا سے تقریباً 23 کلومیٹر مغرب میں واقع ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میری باری آئی، آدھی رات کے قریب، دو پولیس والے مجھے ٹوائلٹ میں لے گئے۔ ان میں سے ایک نے میرے ساتھ زیادتی کی۔‘ وہ یہ اذیت آہستہ آہستہ بیان کرتے ہوئے گہرے سانس لے رہے تھے۔

’جب ایک اور پولیس والا بھی یہی کرنا چاہتا تھا، تو تیسرا پولیس والا آیا اور شاید میری چیخوں کی وجہ سے مجھے ان سے چھڑا کر واپس سیل میں لے گیا۔‘

بلاکاج نے کہا کہ زیادہ تر جنسی تشدد سرب فورسز نے نسلی البانوی خواتین پر کیا۔ ان کے مطابق، جنگ کے اختتام تک یہ عمل ’شہریوں میں دہشت پھیلانے کا ہتھیار‘ بن گیا۔

2017 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق، ’پولیس، نیم فوجی اور مسلح افواج کے ہاتھوں زیادتی عام اور تقریباً معمول کی بات بن چکی تھی۔‘

رپورٹ میں سرب فوج کے ایک منحرف اہلکار کے حوالے سے کہا گیا کہ جنسی تشدد ’بالکل ایسے تھا جیسے نہانا یا ناشتہ کرنا۔‘

جب نیشوری نے آخرکار اپنے خاندان کو اپنی اذیت کے بارے میں بتایا تو ان کی بڑی بیٹی فلطورہ نے انہیں حوصلہ دیا کہ وہ یہ کہانی سب کے سامنے لائیں۔

تھیٹر کی 23 سالہ طالبہ نے کہا کہ ’ابو کی کہانی سامنے آنا اس لیے ضروری تھا کہ یہ ظاہر ہو کہ جنسی تشدد کا شکار صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد بھی ہوئے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس راز کے سامنے آنے کے بعد خاندان میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ وہ پہلے بھی ہمارے والد تھے اور اب بھی ہیں۔ وہ وہی شخصیت ہیں، شاید پہلے سے بھی زیادہ مضبوط۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا