’میں نے سوات سے تعلق رکھنے والے بخت کرم نامی شخص سے بوسنیا میں شادی کی۔ وہ وہاں پر ملازمت کرتے تھے۔ میرے شوہر کینسر کی وجہ سے چل بسے اور اب شوہر کے بچے اور رشتہ دار مجھ سے میری حق مہر کی جائیداد چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
بوسنیا کی شہری جیسنا فیچ کویک نے سوات کے علاقے خوازہ خیلہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص سے شادی کی تھی۔
خاتون کو حق مہر میں شوہر کی جانب سے ایک گھر، باغ اور دو کنال کی جائیداد دی گئی تھی، لیکن اب جیسنا کے مطابق ان کے متوفی شوہر کے بچے اور رشتہ دار ان سے یہ جائیداد چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جیسنا نے انصاف کے حصول کے لیے پشاور ہائی کورٹ کے وکیل طارق افغان کی وساطت سے صوبائی محتسب برائے خواتین کی عدالت میں درخواست جمع کرواتے ہوئے انصاف کی استدعا کی ہے۔
وکیل طارق افغان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عدالت نے اس سلسلے میں خاتون کے شوہر کے رشتہ داروں اور دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کیے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’خاتون نے درخواست میں اپنے شوہر کے بیٹے، دو رشتہ داروں اور خوازہ خیلہ کے ریوینیو آفیسر کو فریق بنایا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ ان کی حق مہر کی جائیداد فوری طور پر ان کے نام ٹرانسفر کی جائے کیونکہ اس جائیداد کے سٹامپ پیپرز خاتون کے پاس موجود ہیں۔‘
درخواست میں کیا کہا گیا ہے؟
خاتون کی جانب سے دائر درخواست (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ان کے شوہر سوئٹزر لینڈ کے تعاون سے جاری خیبر پختونخوا کے ایک منصوبے میں ملازت کرتے تھے، جو بعد میں کینسر میں مبتلا ہوگئے۔
درخواست گزار کے مطابق انہوں نے شوہر کے علاج کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور آخری سانس تک ان کا ایک اچھے ہسپتال سے علاج بھی کروایا لیکن وہ کینسر سے انتقال کرگئے۔
درخواست کے مطابق: ’میں نے شوہر کے علاج کے لیے ہر قسم کی کوشش کی۔ اپنے زیورات بھی بیچ دیے تاکہ ہسپتال کا خرچہ برداشت کر سکوں جبکہ بوسنیا میں ایک گھر بھی ان کے علاج کے لیے فروخت کر دیا تاکہ شوہر کا درست طریقے سے علاج کروا سکوں لیکن وہ صحت یاب نہ ہوئے۔‘
درخواست گزار کے مطابق ان کے شوہر نے انہیں حق مہر میں سوات میں واقع ایک باغ، گھر اور دو کنال کی زمین دی تھی اور وہ اس جائیداد کی قانونی مالک ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خاتون کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کی موت کے بعد اب ان کے بچے اس جائیداد پر قابض ہونا چاہتے ہیں اور ان پر ملک چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
درخواست گزار کے مطابق انہیں شوہر کے بچوں اور رشتہ داروں کی جانب سے ہراساں کیا جارہا ہے۔ ’مجھے کہتے ہیں کہ اگر گھر خالی نہیں کیا اور ملک نہیں چھوڑا تو مجھے جان سے ماردیا جائے گا۔‘
خاتون کے مطابق مخالفین کی جانب سے ان کے بینک اکاؤنٹ کو ہیک کرنے کی کوشش بھی کی گئی جبکہ انہیں ذہنی ٹارچر بھی کیا جا رہا ہے۔
درخواست گزار نے لکھا: ’مجھے شدید ذہنی کوفت کا سامنا ہے۔ میرے ملازم اور خواتین دوستوں کو بھی رشتہ داروں کی جانب سے ہراساں کیا جا رہا ہے اور ان پر حملہ بھی کیا گیا تھا، جس کی رپورٹ مقامی تھانے میں درج کروا چکی ہوں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ شوہر کی فات کے بعد انہوں نے شوہر کے تمام قرضے واپس کردیے تھے جبکہ کفن دفن کا انتظام بھی انہوں نے خود کیا تھا کیونکہ ان کے بچوں نے قرضہ دینے اور کفن دفن کا انتظام کرنے سے انکار کیا تھا۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ عدالت ریوینیو اتھارٹی کو ہدایات جاری کرے کہ وہ حق مہر میں دی گئی ان کی جائیداد کو ان کے نام پر ٹرانسفر کرے اور شوہر کے بچوں اور رشتہ داروں کو ان سے دور رہنے کی ہدایت جاری کرے۔