ضلع خیبر: خاتون ’پہلی بار‘ جائیداد میں حصہ مانگنے عدالت پہنچ گئیں

تحصیل لنڈی کوتل کے دور افتادہ علاقے لوئی شلمان سے تعلق رکھنے والی خاتون نے اپنی درخواست میں سول عدالت سے استدعا کی ہے کہ ان کے والد کی طرف سے چھوڑی گئی جائیداد کو بہن بھائیوں میں شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کیا جائے۔

16 اپریل 2019 کی اس تصویر میں خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں  ایک برقع پوش خاتون کو وکٹری کا نشان بنائے دیکھا جاسکتا ہے۔  صوبے میں ضم شدہ قبائلی اضلاع سے حال ہی میں ایک خاتون نے جائیداد کے معاملے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

خیبر پختونخوا میں ضم شدہ ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل میں ایک خاتون نے وراثتی جائیداد میں سے حصہ مانگنے کے لیے سول عدالت سے رجوع کیا ہے، جسے سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے عدالت نے فریقین کو آٹھ جولائی کو طلب کر لیا۔

کہا جارہا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے، جہاں ضم شدہ اضلاع سے کسی خاتون نے جائیداد کے معاملے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔

خاتون کا تعلق لنڈی کوتل کے دور افتادہ علاقے لوئی شلمان سے ہے، جن کے دو بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ انہوں نے اپنی درخواست میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ ان کے والد کی طرف سے چھوڑی گئی جائیداد  کو بہن بھائیوں میں شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کیا جائے۔

خاتون کے وکیل ساجد شنواری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ لنڈی کوتل کی مقامی عدالت میں اس نوعیت کا پہلا کیس ہے کہ ایک خاتون نے جائیداد میں حصہ لینے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے۔‘

ساجد نے بتایا: ’خاتون کی عمر تقریباً 45 سال ہے اور انہوں نے لنڈی کوتل کی عدالت میں خود آکر میرے توسط سے درخواست جمع کروائی ہے، جن کا موقف ہے کہ ان کے مرحوم والد کی جائیداد میں سے انہیں حصہ دیا جائے۔‘

وکیل کے مطابق سول عدالت لنڈی کوتل نے اس کیس کو آٹھ جولائی کو سماعت کے لیے مقرر کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالت میں جمع کروائی گئی درخواست (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) میں خاتون نے موقف اختیار کیا ہے کہ ان کے والد کی وفات کے بعد وہ اس جائیداد میں شرعی اور قانونی حصہ دار ہیں۔

درخواست کے مطابق: ’یہ جائیداد بہن بھائیوں میں ابھی تک تقسیم نہیں کی گئی اور جب بھائیوں سے جائیداد میں حصہ مانگا گیا تو وہ غصے میں آگئے اور مجھے دھمکی بھی دے ڈالی۔‘

درخواست گزار نے مزید کہا کہ انہوں نے جائیداد میں حصہ لینے کے لیے مختلف جرگے بھی مخالف فریق کو بھیجے اور کوشش کی کہ عدالت سے باہر یہ مسئلہ حل ہو سکے تاہم بھائیوں نے جائیداد میں حصہ دینے سے مکمل انکار کیا۔

قبائلی اضلاع کے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے بعد 2019 میں عدالتوں کو ان اضلاع تک توسیع دی گئی تھی اور تب سے عدالتوں نے کام شروع کیا ہے۔

اس حوالے سے وکیل ساجد شنواری نے بتایا: ’پہلے قبائلی اضلاع کے ججز حیات آباد میں بیٹھتے تھے لیکن 2021 میں عدالتوں کو باقاعدہ تحصیلوں میں منتقل کردیا گیا اور اب سیشن جج اور ایڈیشنل سیشن جج بیھٹتے ہیں اور کیسز کو سنتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ خواتین کی جانب سے مختلف نوعیت کے مقدمات اب عدالتوں میں آرہے ہیں لیکن جائیداد کے حوالے سے لنڈی کوتل کی مقامی عدالت میں یہ پہلا مقدمہ ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین