آرٹیکل 370 پر انڈین سپریم کورٹ میں سنوائی ’امید کی کرن‘

چند روز کے انتظار کے بعد پتہ چلے گا کہ کیا سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ جموں و کشمیر کے عوام سے ماضی میں کیا گیا سیاسی عہد و پیماں کا مان رکھے گا یا پھر بی جے پی کا بیانیہ لے کر اس شق کی منسوخی پر ہمیشہ کے لیے مہر ثبت کرے گا۔

انڈین سپریم کورٹ کی عمارت کی یہ تصویر جولائی 2018 میں لی گئی تھی (اے ایف پی)

جموں و کشمیر میں قومی دھارے سے جڑی سیاسی جماعتوں کو اس وقت امید کی ایک نئی کرن دکھائی دی جب انڈیا کی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 پر دو درجن سے زائد پٹیشنوں کو 11 جولائی کو سننے کا اعلان کیا۔

اس سے چند روز قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرا چوڈ کشمیر کے دورے پر آئے تھے جہاں انہوں نے ایک  لیگل سیمنار میں شرکت کی۔

یہ تحریر کالم نگار کی آواز میں یہاں سنی بھی جاسکتی ہے:

اس دوران مقامی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے عدالت عظمیٰ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اس نے چار سال گزرنے کے باوجود آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کے خلاف دی جانے والی ان کی عرض داشتوں کو ابھی تک نہیں چھوا، سننے کی بات تو دور ہے۔ عدالت پر زور ڈالا گیا کہ جموں و کشمیر کے ایک کروڑ 20 لاکھ لوگ انصاف ملنے کا انتظار کر رہے ہیں، جن سے ان کا آئین، پرچم، شہریت اور وقار چھین لیا گیا ہے۔

نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی سمیت کئی جماعتوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے پانچ اگست 2019 کے فیصلے کے خلاف پٹیشن میں اعتراض اٹھایا ہے کہ غیرآئینی اور غیرقانونی اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ اس میں مقامی قانون ساز اسمبلی کی نہ تو مرضی شامل ہے اور نہ عوام کو اس بارے میں اعتماد میں لیا گیا ہے۔

پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا کہ بی جے پی نے چار سال قبل ’ہمارے سیاسی حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے، جس کو سود سمیت واپس کرنا ہوگا‘۔

نیشنل کانفرنس کی دلیل ہے کہ سنہ 47 میں برصغیر کے بٹوارے کے بعد جموں و کشمیر کے رہنما شیخ محمد عبداللہ نے الحاقِ انڈیا کو صرف اس شرط پر مان لیا تھا کہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجے کے تحت اپنا آئین، پرچم اور شہریت کا حق ہوگا، جس کے بعد آرٹیکل 370 کو آئین ہند میں شامل کر لیا گیا تھا۔

املاک اور شہریت سے متعلق آرٹیکل 35 اے جو ڈوگرہ مہاراجوں کے وقت سے جموں و کشمیر میں رائج تھا، انڈیا نے من و عن اس شق کو برقرار رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔

بی جے پی نے ان دونوں شقوں کو ہٹانے کی ایک لمبی مہم اس وقت شروع کی جب ہندو مہا سبھا کے رہنما شیا ماپرساد مکھرجی نے بٹوارے کے فوراً بعد کشمیر کے دورے پر آکر ’ایک ملک ایک آئین‘ کا نعرہ دیا تھا۔

مکھرجی کو مقامی حکومت نے حراست میں لیا جہاں دوران حراست ان کا انتقال ہوا، جس پر نیشنل کانفرنس کے رہنما شیخ محمد عبداللہ کو کافی ہزیمت اٹھانا پڑی تھی۔

مورخوں کے مطابق نو اگست 1953 کو رات کے دوران شیخ عبد اللہ کی حکومت ہٹا کر اور انہیں گرفتار کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔

90 کے اوائل میں مسلح تحریک کے دوران نریندر مودی بی جے پی کے سینیئر رہنماؤں کے ہمراہ انڈیا کا پرچم لہرانے کے لیے کشمیر آئے جہاں انہوں نے دفعہ 370 کو ہٹانے کا اعادہ کیا تھا۔

 2019 میں دوسری بار وزیراعظم بننے کے فوراً بعد مودی کا پہلا کام آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کو ہٹانا تھا جو بی جے پی کے منشور کے تین اہم ایجنڈوں میں سے ایک رہا ہے۔

پہلا ایجنڈا رام مندر کی تعمیر نو تھا جو مودی کی اپنی پہلی مدت کے دوران انجام دیا گیا تھا۔ تیسرا ایجنڈا اب یونیفارم سول کوڈ کو لاگو کرنا ہے، جو 2024 کے انتخابی منشور کا اہم نکتہ ہے اور جس پر ملک کے اطراف میں بحث شروع کی گئی ہے۔

کشمیر کی سول سوسائٹی کے سرکردہ کارکن غلام حیدر (سکیورٹی کے باعث نام تبدیل کیا گیا ہے) کہتے ہیں کہ ’آرٹیکل 370 انڈیا اور کشمیر کے مانند ایک پل تھا جو بی جے پی نے گرا دیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غلام حیدر کے مطابق: ’بھلے ہی بی جے پی ایک ارب آبادی کو اس غلط فہمی سے دل بہلائے کہ کشمیر میں سب کچھ نارمل ہو گیا ہے، اب تو انڈیا کی دوسری ریاستوں میں تحریکیں اٹھ رہی ہیں، کشمیر خاموش ہے مگر اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوا ہے۔ سپریم کورٹ پر دارومدار ہے کہ کیا وہ ہمیں وقار سے زندہ رہنے کا حق واپس دیتی ہے یا پھر بی جے پی کے بیانیے کی حمایت کرتی ہے۔‘

بیشتر آبادی کو گو کہ سپریم کورٹ سے انصاف ملنے کی امید تو نہیں ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ بعض عدالتی فیصلے حکومت کی منشا کے مطابق ہوتے ہیں، البتہ سیاسی جماعتوں کو نہ جانے یہ امید کیوں ہے کہ ایک منصفانہ فیصلے کے تحت اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے حکومت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ کئی ماہرین آئین نے بھی رائے ظاہر کی ہے کہ آئین کی اس شق کو مقامی اسمبلی کے ووٹ کے بغیر ختم کرنا آئین کا انحراف ہے اور سپریم کورٹ میں پہلی پیشی کے دوران ہی اس کی دھجیاں اڑا دی جائیں گی۔

آئین کے ایک ماہر راجندر سدھوترا کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ آئین کا بھرم رکھنے کے لیے شاید یہ کہہ دے کہ حکومت کا ہٹانے کا طریقہ کار غلط تھا، جس کو نئی اسمبلی ووٹ کے ذریعے صحیح کر سکتی ہے، البتہ اسے واپس اپنی شکل میں لانا ممکن نہیں لگ رہا ہے۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک سماعت کے بعد پھر اسے فائلوں کے انبار کے نیچے دبا دیا جائے، جیسا کہ ایسے معاملات میں ہوتا آیا ہے۔

چند روز کے انتظار کے بعد پتہ چلے گا کہ کیا سپریم کورٹ کا یہ پانچ رکنی بینچ جموں و کشمیر کے عوام سے ماضی میں کیا گیا سیاسی عہد و پیماں کا مان رکھے گا یا پھر بی جے پی کا بیانیہ لے کر اس شق کی منسوخی پر ہمیشہ کے لیے مہر ثبت کرے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر