ایپٹیک کشمیر کا اڈانی ہے

ایک جانب بی جے پی مخالف مقامی سیاسی لیڈرشپ نے سرکار کو خاصا نشانہ بنایا تو دوسری طرف خود جموں میں بی جے پی کے بیشتر کارکنوں نے ایپٹیک کو فوراً فارغ کرنے کی زوردار مانگ کی۔

24 مئی 2022 کی اس تصویر میں کشمیر میں نوجوانوں کی تنظیم نیشنل یوتھ کور کے ارکان سرکاری محکموں میں اپنی نوکریوں کو مستقل کرنے اور تنخواہوں میں اضافے کے حق میں مظاہرہ کرتے ہوئے(اے ایف پی)

انڈیا کا شاید یہ پہلا واقعہ ہوگا جب حکمران جماعت بی جے پی کی ایک پالیسی کے خلاف اسی پارٹی کے ایک سینیئر لیڈر اور وکیل نے ببانگ دہل اعلان کیا ہو کہ وہ اس پالیسی کو غلط قرار دینے کا کیس سپریم کورٹ میں لڑیں گے اور وہ بھی جب اس پالیسی کا اطلاق جموں و کشمیر کے نوجوانوں پر کیا گیا ہو۔

جموں و کشمیر کے ڈگری یافتہ ہزاروں نوجوان تین سال میں پہلی بار سڑکوں اور چوراہوں پر اُس فیصلے کے خلاف مظاہرے کرتے دیکھے گئے، جس کے تحت ملازمت کے حصول کے لیے منعقد امتحانات لینے کا کنٹریکٹ بلیک لسٹڈ ایک نجی کمپنی ایپٹیک کو دیا گیا ہے جس پر متعدد بار بد دیانتی کے بے شمار الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے:

ایپٹیک پیشہ ورانہ تربیتی کورسز منعقد کرانے کی مہاراشٹر کی ایک نجی کمپنی ہے جس کے خلاف پہلے ہی اُترپردیش، پنجاب اور آسام میں مقابلے کے امتحانات منعقد کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

ایپٹیک پر نتائج ظاہر کرنے میں خردبرد کا الزام ہے اور بعض عدالتوں کی طرح جموں و کشمیر کی عدلیہ نے بھی اس کمپنی کو ایسی ذمہ داری نہ دینے کا ایک حکم نامہ جاری کیا مگر جموں و کشمیر کی حکومت نے اس پر حکم التوا لایا تھا۔

حصول روزگار کے لیے مقابلے کے امتحانات منعقد کرانے کی ذمہ داری گو کہ سروسز سیلیکشن بورڈ کی ہوتی ہے مگر کچھ عرصے سے بورڈ نے یہ کام ایپٹیک کو دیا تھا جس کی ناقص کارکردگی پر ماضی میں بھی بارہا سوالات اُٹھائے گئے ہیں۔

ایپٹیک کا یہ مسئلہ بی جے پی کی حکومت اور مقامی سیاسی جماعتوں کے بیچ ایک نئی تکرار کا باعث بنا جب انڈین نواز بعض رہنماؤں نے الزام عائد کیا کہ ایپٹیک کے مالک وزیراعظم اور دوسرے مرکزی وزرا کے کافی قریب رہے ہیں لہذا جموں و کشمیر کے نوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑ کرنے کی ذمہ داری اس کمپنی کو دی گئی ہے۔

جواب میں جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ ’جن سیاست دانوں نے ماضی میں ‘دہشت گردوں’ کو نوکریوں پر رکھ کر لاکھوں ڈگری یافتہ نوجوانوں کے مستقبل کو داو پر لگا لیا تھا اُنہیں ایپٹیک پر بات کرنے کا حق ہے نہ وہ عوام کے نمائندے رہ گئے ہیں۔‘

ایک جانب بی جے پی مخالف مقامی سیاسی لیڈرشپ نے سرکار کو خاصا نشانہ بنایا تو دوسری طرف خود جموں میں بی جے پی کے بیشتر کارکنوں نے ایپٹیک کو فوراً فارغ کرنے کی زوردار مانگ کی۔

جموں میں نوجوانوں کو پولیس کی پٹائی اور گھسیٹ کے گرفتار کرنے کی بعض ویڈیوز وائرل ہونے سے بی جے پی کو  اپنے ووٹروں میں خاصی سُبکی ہوئی ہے اور سرکار اور مقامی بی جے پی میں اس معاملے پر اختلاف رائے کی خبریں منظر عام پر آ گئیں۔

پھر جب بی جے پی کے سینیئر رہنما اور وکیل سبرامینم سوامی نے نوجوانوں کی طرف سے ایپٹیک کو فارغ کرنے سے متعلق سپریم کورٹ میں پیٹیشن دائر کرنے کا اعلان کیا تو ظاہر ہے کہ دہلی کے ایوانوں میں اندرونی انتشار کی کیفیت محسوس کی گئی۔

جس کے بعد سرکار نے 15 مارچ سے شروع ہونے والے امتحانات کو فی الحال  ملتوی کرنے کا فیصلہ سنایا البتہ اب بھی ایپٹیک کو فارغ کرنے میں لیت و لعل کر رہی ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نوجوانوں کی بڑی تعداد احتجاج کے دوران شکایت کر رہی ہے کہ سرکار نے ایپٹیک کو فارغ کرنے کے بجائے امتحان کو ملتوی کر کے اُن کے مستقبل کو پھر داو پر لگا دیا ہے۔

واضح رہے سبرامینیم سوامی بی جے پی میں سخت گیر ہندو رہنما تصور کیے جاتے ہیں جو آرٹیکل 370 کو ہٹانے کے کٹر حامی رہے ہیں۔

راجیہ سبھا میں رُکن پارلیمان کی ان کی نشست کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ مودی کی پالیسیوں پر اکثر تنقید کرتے رہتے ہیں۔

جموں و کشمیر سروسز سیلکشن بورڈ کے اس امتحان میں شامل ہونے والے جموں کے اجیت ڈوگرہ کہتے ہیں کہ ’ایپٹیک کی کہانی بھی ویسی ہے جیسے انڈیا میں اڈانی کا معاملہ بنا ہوا ہے جو بی جے پی لیڈرشپ کے قریب ہے اور مل جل کر عوام کے پیسے سے مزے لوُٹ رہے ہیں۔ اب جب بی جے پی کے اندر سے اس کے خلاف اختلاف رائے سامنے آیا تو فی الحال امتحانات کو ملتوی کردیا گیا ہے لیکن جب تک سپریم کورٹ ایپٹیک پر حتمی پابندی عائد نہیں کرتی تب تک ہمارا مستقبل خطرے میں ہے اور رشوت خوری میں کمی نہیں آئے گی۔‘

حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ تین برسوں میں جموں و کشمیر میں بے روزگاروں کی تعداد میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

 تقریبا 10 لاکھ ڈگری یافتہ نوجوان اس وقت بے روزگار ہیں جو ذہنی دباو کے باعث کبھی منشیات کے عادی بن رہے ہیں یا خودکُشی کر رہے ہیں یا خود کو بندوق بردار جتا کر مرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ رہے سہے ڈگری یافتہ نوجوان سڑکوں پر پٹ رہے ہیں اور دھکے کھا رہے ہیں۔

جبکہ مقامی لیڈر شپ انتخابات کے انتظار میں چند سطروں والا بیانیہ جاری کر کے اپنی ذمہ داریوں سے خود کو مبرا سمجھتی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ