کشمیر میں مردم شماری کے بائیکاٹ کی مہم کیوں؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ڈیجیٹل مردم شماری 2023 پر سول سوسائٹی کی طرف اٹھائے گئے اعتراضات کے بعد اب اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ بعض علاقوں میں مردم شماری کے لیے جانے والی ٹیموں کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔

یکم مارچ 2023 کی اس تصویر میں ادارہ برائے شماریات کے اہلکار کراچی میں  گھر گھر جا کر ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے کوائف اکٹھا کر رہے ہیں (اے ایف پی)

ملک بھر میں جاری ڈیجیٹل مردم شماری 2003 کے حوالے سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں عوام اور سول سوسائٹی کی تنظمیوں نے شدت کے ساتھ بعض اعتراضات اٹھائے ہیں اور اعتراضات دور نہ ہونے کی صورت میں مردم شماری کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کیا ہے۔

یہ اعتراضات مردم شماری کے لیے جاری فارم کے خانہ نمبر آٹھ میں قومیت کے زمرے میں کشمیری شہریوں کے علیحدہ شناخت کے طور پر اندراج نہ ہونے کے حوالے سے ہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے بعض علاقوں سے ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ ہو رہی ہیں جن میں مقامی لوگ مردم شماری کے لیے جانے والی ٹیموں کو معلومات دینے کے بجائے یہ کہہ کر واپس بھیج رہے ہیں کہ جب تک کشمیریوں کا اندراج بطور علیحدہ شناخت نہیں ہوتا، وہ اس عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔

اس سے قبل ہونے والی تمام مردم شماریوں میں کشمیری شہریوں کو، خواہ وہ کشمیر میں مقیم ہوں یا پاکستان کے شہروں میں، ایک علیحدہ شناخت کے طور پر شمار کیا جاتا رہا۔ البتہ اس مرتبہ انہیں پاکستانی شہری کے طور پر ہی شمار کیا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ مردم شماری میں کشمیری، پہاڑی، گوجری اور بروشسکی سمیت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں بولی جانے والی کئی چھوٹی بڑی زبانوں کو بھی شمار نہیں کیا جا رہا۔

یہ معاملہ پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آیا جب دو ماہ قبل پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مردم شماری کے لیے متعین سرکاری ملازمین کی تربیت کا عمل شروع ہوا۔

ابتدا میں کشمیر کی خود مختاری کی حامی آزادی پسند جماعتوں کے جانب سے اٹھائے گئے ان اعتراضات میں سول سوسائٹی، وکلا اور پھر دوسری سیاسی جماعتیں شامل ہوئیں اور اب یہ معاملہ خطے میں ایک مقبول مطالبہ بن چکا ہے۔ کئی لوگ اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کر تے ہوئے مطالبہ کر رہے ہیں کہ مردم شماری کے فارم میں فوری طور پر تبدیلی کی جائے۔

اس معاملے کو لے کر اب تک کئی چھوٹے بڑے احتجاجی مظاہروں کے علاوہ بعض علاقوں میں مردم شماری کے لیے جانے والی ٹیموں کے ساتھ تعاون نہ کرنے کی بھی اطلاعات آ رہی ہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون اسمبلی میں حالیہ دنوں میں متفقہ طور پر قرارداد کی منظوری کے بعد چار رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو حکومت پاکستان اور پاکستان ادارہ برائے شماریات کے ساتھ اس معاملے پر بات کرنے کے بعد اپنی رپورٹ اسمبلی میں پیش کرے گی۔

یہ قرارداد اسمبلی میں پیش کرنے والے پیپلز پارٹی کے رہنما اور قائد حزب اختلاف چوہدری لطیف اکبر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ یہ معاملہ اس سے قبل وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کے ساتھ اٹھا چکے ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا: ’ایسا لگتا ہے کہ وفاقی حکومت اور ادارہ شماریات میں بیٹھے لوگوں کو اس معاملے کی حساسیت اور اس سے جڑی سیاسی پیچیدگی کا اندازہ نہیں، اس لیے ابھی تک اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔‘

اس سے قبل پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم سردار تنویر الیاس بھی اس معاملے پر چیف سیکریٹری کے ذریعے حکومت پاکستان سے رابطہ کر کے اس معاملے کی حساسیت اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے چینی سے آگاہ کر چکے ہیں۔ 

تنویر الیاس کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور افتحار رشید چغتائی نے انڈپینڈنٹ اردو کو  بتایا کہ ’وزیراعظم اس معاملے کی حساسیت سے آگاہ ہیں اور حکومت کوشش کر رہی ہے کہ اس بے چینی اور ابہام کو دور کیا جا سکے۔‘

قائد حزب اختلاف چوہدری لطیف اکبر کہتے ہیں کہ ’اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور یہاں رائے شماری ہونی ہے۔ اس رائے شماری میں صرف متنازع علاقوں کے باشندے ہی حصہ لیں گے۔ گلگت بلتستان میں پہلے ہی سٹیٹ سبجیکٹ کا قانون ختم کر کے ایک ابہام پیدا کیا جا چکا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’انڈیا کی جانب سے اپنے زیر انتظام علاقوں کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد اب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت ہی واحد لوکل اتھارٹی ہے جو اقوام متحدہ کی قرارداوں کے مطابق قائم ہے۔

’اب اگر اس علاقے کے لوگوں کو بھی علیحدہ شناخت کے طور پر شمار کرنے کی بجائے بطور پاکستانی شہری شمار کیا جائے گا تو رائے شماری میں ووٹ کون ڈالے گا۔‘

پانچ اگست 2019 کو انڈیا کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد پاکستان میں یہ پہلی مردم شماری ہے اور کشمیریوں کے علیحدہ شناخت کے طور پر اندراج کا آپشن ختم ہونے کے معاملے پر کئی شکوک و شبہات بھی جنم لے رہے ہیں۔

 بعض قوم آزادی پسند جماعتیں اس خدشے کا اظہار کر رہی ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کشمیر کی تقسیم اور شناخت کے خاتمے پر متفق ہو چکے ہیں تاہم چوہدری لطیف اکبر اس سے متفق نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ کہتے ہیں کہ ایسا بالکل بھی نہیں کہ یہ دانستہ طور پر کیا گیا ہو یا اس کے کوئی پس پردہ مقاصد ہوں، البتہ یہ واضح ہے کہ ادارہ شماریات کے افسران اور وفاقی حکومت کے ذمہ داروں کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں کہ وہ کتنی بڑی غلطی کر رہے ہیں اور اس کے مستقبل میں کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔

اصل معاملہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگلت بلتستان کے ان شہریوں کا ہے جو روزگار کی غرض سے پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کی 40 فیصد آبادی پاکستان میں ملازمت، تعلیم حاصل کرنے یا کاروبار کے لیے موجود ہے۔

اس کے علاوہ کشمیری مہاجرین کی ایک بڑی تعداد بھی مستقل طور پر پاکستان میں مقیم ہے۔ مردم شماری میں ان کی قومیت بطور پاکستانی شمار ہونے سے مہاجرین جموں و کشمیر کی آبادی کے بھی کوئی اعداد و شمار سامنے نہیں آ سکیں گے جن کے تحت انہیں مستقبل میں رائے شماری میں شامل کیا جا سکے۔

اس معاملے پر مہم چلانے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کشمیر ڈویلپمنٹ فاونڈیشن کے سربراہ سردار آفتاب خان کہتے ہیں کہ ’ادارہ شماریات مردم شماری ہماری ریاستی شناخت مٹا کر پاکستانی عوام اور حکومت کے کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔‘

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’حکومت پاکستان جموں و کشمیر کے تشخص، وحدت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے اور تمام کشمیری باشندوں کے رائے شماری میں آزادانہ حق خودارادیت کے استعمال کےحق کا احترام کرے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے ادارہ برائے شماریات پاکستان کے رکن محمد سرور گوندل سے اس معاملے پر بذریعہ فون اور ای میل متعدد مرتبہ رابطہ کیا، تاہم اس رپورٹ کے شائع ہونے تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان