پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری:بےقاعدگیوں کو دور کرنے کی کوشش

حکام کا کہنا ہے کہ نئے ڈیجیٹل طریقے سے مردم شماری میں بے قاعدگیوں کی نشاندہی اور انہیں ٹھیک کرنا آسان ہو جائے گا۔

اسلام آباد، 25 اپریل، 2017: ادارہ شماریات پاکستان کا عہدیدار سکیورٹی اہلکار کے ہمراہ مردم شماری کے عمل میں ایک گھر کے باہر موجود (اے ایف پی)

دو بچوں کے والد محمد ثاقب پرجوش انداز میں اپنے لاہور دفتر میں لیپ ٹاپ پر اپنے خاندان کی تفصیلات ٹائپ کر رہے ہیں- تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی والا پاکستان پہلی بار اپنی آبادی کو ڈیجیٹل طریقے سے گن رہا ہے۔

اس 38 سالہ شخص نے مسکراتے ہوئے پورٹل پر ’جمع کروائیں‘ کا بٹن دباتے ہوئے کہا، ’میری شیرخوار بیٹی کا ابھی اندراج ہوگیا۔‘ اس پورٹل کا آغاز گذشتہ ہفتے اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران کیا گیا تھا۔

اختیاری سیلف رجسٹریشن کے بعد یکم مارچ سے ٹیبلٹ اور موبائل استعمال کرتے ہوئے ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد شمار کنندگان کی جانب سے تفصیلات جمع کی جائیں گی۔ جس سے منتظمین کا کہنا ہے کہ اس عمل کو زیادہ درست، شفاف اور قابل اعتماد بنایا جائے گا۔

امریکہ سے لے کر ایسٹونیا تک، دنیا بھر کے ممالک کام میں بہتری لانے، درستگی کو بہتر بنانے اور لاگت میں اضافے پر قابو پانے کے لیے اپنی آبادی کی تعداد کو ڈیجیٹل کر رہے ہیں۔

پاکستان کی پارلیمنٹ میں انتخابی نشستوں کے ساتھ ساتھ سکولوں اور ہسپتالوں جیسی بنیادی سہولیات اور فنڈز آبادی کے اعداد و شمار کے لحاظ سے دیئے جاتے ہیں۔ اس سے قبل ہونے والے گنتی کے عمل میں کچھ جگہوں پر غلط گنتی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

درستگی

کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے ماہر معاشیات و مردم شماری عاصم بشیر خان نے کہا کہ وہ یہ دیکھ کر حیران ہیں کہ کراچی کے کچھ گنجان آباد علاقوں میں 2017 کی مردم شماری میں کوئی آبادی درج نہیں کی گئی تھی۔

ایک ٹیلی فون انٹرویو میں انہوں نے کہا، ’چونکہ لوگوں کو شمار نہیں کیا گیا تھا کہ وہ کہاں رہتے ہیں، لیکن ان کی قانونی حیثیت یا مستقل پتہ پر ان کے شناختی کارڈ دکھائے گئے ہیں، اس کے نتیجے میں وہاں کم گنتی ہوئی جہاں انہوں نے وسائل کا استعمال کیا اور جہاں انہوں نے (وسائل کا استعمال) نہیں کیا وہاں ضرورت سے زیادہ رپورٹنگ کی گئی۔‘

مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ 2017 کی آخری مردم شماری میں پہلی بار ٹرانس جینڈر افراد کی گنتی کی گئی تھی، جس میں تقریبا 20 کروڑ80 لاکھ کی آبادی میں صرف 10 ہزار 418 خواجہ سراؤں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ بعد میں ان کی تعداد 21 ہزار سے زیادہ تھی۔

خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ بلیو وینز کے بانی قمر نسیم کا کہنا ہے کہ ’خواجہ سراؤں نے ان کے اعداد و شمار کو مسترد کر دیا ہے۔ معذور افراد کو بھی درست طریقے سے شمار نہیں کیا گیا۔‘

حکام کا کہنا ہے کہ نئے ڈیجیٹل طریقے سے بے قاعدگیوں کی نشاندہی اور انہیں ٹھیک کرنا آسان ہو جائے گا۔

مردم شماری کی نگرانی کرنے والے وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا، ’ڈیجیٹل مردم شماری شفافیت کو یقینی بنائے گی اور مردم شماری کے انعقاد اور نگرانی میں صوبوں کی شمولیت سے قابل اعتماد نتائج کی راہ ہموار ہوگی۔‘

وفاقی وزیر نے اسلام آباد سے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا کہ ’ایک ماہ تک سبز جیکٹیں پہنے ہوئے ایک لاکھ 26 ہزار گنتی کار محفوظ ٹیبلٹس کے ذریعے پاکستان بھر میں ہر شخص کی گنتی کریں گے، چاہے وہ سرحدی علاقوں میں ہو یا اندرونی علاقوں میں۔‘

ادارہ برائے شماریات پاکستان (پی بی ایس) کے ترجمان محمد سرور گوندل، جو ڈیجیٹل مردم شماری کے عمل کی قیادت کر رہے ہیں، نے کہا کہ اس کے فوائد میں قابل اعتماد اعداد و شمار، ریئل ٹائم مانیٹرنگ اور دور دراز علاقوں کی مکمل کوریج شامل ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ’پچھلی مردم شماری میں درپیش مسائل کو دور کرنے کے لیے ہمارے پاس 24 گھنٹے شکایات کے انتظام کا نظام ہے۔‘

چیف پی بی ایس شماریات نعیم الظفر نے کہا کہ صوبوں کو دیگر اشاریوں کے علاوہ جنس، روزگار اور نقل مکانی کے بارے میں الگ الگ معلومات خود بخود مل جائیں گی۔

انہوں نے کہا، ’لہذا یہ سماجی و اقتصادی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کے لیے ایک مؤثر ذریعہ ہوگا کیونکہ یہ رسائی اور غربت کی تصویر کو واضح طور پر ظاہر کرے گا۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہوگی جس سے بے گھر، عارضی مزدوروں اور خانہ بدوشوں سمیت بہت سے لوگوں کو مدد ملے گی۔‘

شمولیت

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل گنتی کو زیادہ سے زیادہ قابل رسائی اور آسان بنایا جانا چاہئے تاکہ پسماندہ گروہوں کو شامل کیا جاسکے۔

آزاد ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل حارث خالق نے کہا، ’ڈیجیٹلائزیشن اس عمل کو زیادہ شفاف بناتی ہے، لہذا اس سے مزید مسائل یا اس طرح کی تقسیم نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ 2017 کی مردم شماری کے بعد دیکھا گیا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ سیاسی، مذہبی، نسلی یا جنسی اقلیتوں اور معذور افراد کی جانب سے کم گنتی کے خدشات کو دور کیا جانا چاہیے۔ ہمیں لوگوں کو یہ عمل سمجھانا چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلیو وینز کے بانی قمر نسیم نے کہا کہ مردم شماری شامل ہونی چاہیے۔ جب تک سبھی لوگوں کی اچھی طرح گنتی نہیں کی جاتی، کوئی منصوبہ بندی نہیں ہو سکتی۔ سروس فراہم کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے پاس معذور افراد اور ٹرانس جینڈر کے بارے میں کوئی قابل اعتماد اعداد و شمار نہیں ہیں۔ قوم پرست اور نسلی جماعتوں کے ارکان بھی کم نمائندگی کے بارے میں فکر مند ہیں۔

سندھی سیاست دان نثار احمد کھوڑو نے ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں کہا کہ ’دیہی علاقوں میں بچے زیادہ تر گھر پر پیدا ہوتے ہیں اور لوگ ان کی رجسٹریشن کو ضروری نہیں سمجھتے۔۔۔ اگر ہم اپنی گنتی صحیح طریقے سے کریں تو ہم قومی فنڈز میں اپنا حصہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔‘

محمد سرور گوندل نے کہا، ’ملک میں رہنے والے ہر شخص کو کسی بھی حیثیت سے قطع نظر ایک ایسے گھرانے میں شمار کیا جائے گا جہاں وہ کم از کم چھ ماہ سے رہ رہا ہے یا چھ ماہ یا اس سے زیادہ عرصے سے وہاں رہنے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان