پنجاب میں حلقہ بندیوں، مردم شماری کے بغیر 90 دن میں الیکشن ’مشکل‘

قانونی ماہرین کے خیال میں آئینی طور پر 90 دن کے اندر پنجاب میں انتخابات کرانا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نگران حکومت کی تشکیل کا مرحلہ شروع ہوچکا ہے (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نگران حکومت کی تشکیل کا مرحلہ شروع ہوچکا ہے۔ منگل تیسرا اور آخری دن ہے لیکن نگران وزیر اعلیٰ کے نام پر حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔

دوسری جانب قانونی ماہرین کے خیال میں آئینی طور پر 90 دن کے اندر پنجاب میں انتخابات کرانا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے بقول مسلم لیگ ق کے صوبائی صدر پرویز الہی نے پانچ نئے اضلاع اور 10 نئی تحصیلیں بنا دیں جن میں حلقہ بندی آئینی طور پر ضروری ہے۔

ان کے مطابق مردم شماری بھی اب تک شروع نہیں ہوسکی ہے جس کے بغیر حلقہ بندیاں ہونا مشکل نظر آرہا ہے۔ لہذا الیکشن کمیشن 90 دن میں صوبے کے انتخابات کرانے کی بجائے مدت بڑھا سکتا ہے جس کا انہیں قانونی اختیار بھی حاصل ہے۔

جبکہ سابق صدر سپریم کورٹ بار حامد خان کا کہنا ہے کہ اگرچہ آئین میں نئی حلقہ بندیاں اور مردم شماری انتخابات سے قبل کرانا ضروری ہیں مگر آئین میں اس حوالے سے عمومی پابند کیا گیا ہے۔

’اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات کرانے کی شرط مخصوص کی گئی ہے لہذا الیکشن کمیشن ان حلقہ بندیوں اور مردم شماری کے تحت بننے والی فہرستوں پر انتخابات کرانے کا پابند ہوگا۔‘

اس معاملے پر ابھی حتمی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ موجودہ حالات میں فوری ایک اسمبلی کا الیکشن مقررہ مدت میں ہونا یقینی نہیں لگتا۔

کیا مقررہ مدت میں الیکشن کرانے کی تیاری ہے؟

کنور دلشاد کے مطابق الیکشن کمیشن بااختیار ادارہ ہے اگر چاہے تو کراچی کے بلدیاتی انتخابات کی طرح جب چاہے کرا سکتا ہے۔

’مگر موجودہ حالات میں ایک صوبے کے جنرل الیکشن سے پہلے انتخاب کرانے سے نئی روایت پڑ جائے گی اور قومی اسمبلی کے لیے دو تین صوبوں کے الگ اور ایک صوبہ کے الگ الیکشن کرانا پڑیں گے۔‘

کنور دلشاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی مقررہ وقت پرانتخابات کرانے میں خود سرنگیں کھود کر رکاوٹیں کھڑی کر گئے ہیں۔ انہوں نے صوبے میں پانچ نئے اضلاع اور 10 تحصیلیں بنا دی ہیں۔ اب وہاں حلقہ بندیاں لازمی ہیں اس کے بغیر انتخاب آئینی طور پر نہیں ہوسکتا۔‘

ان کے مطابق ’ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے ٹیچرز کی تربیت جاری ہے ابھی کام شروع ہی نہیں ہوا اس کے لیے تین ماہ تک کا وقت درکار ہوگا نئی مردم شماری کے بغیر بھی 90 دن میں الیکشن ممکن نہیں۔‘

اس کے برعکس سینیئر قانون دان حامد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ آئین میں اسمبلی تحلیل کے بعد 90 دن میں الیکشن کرانا ضروری ہے۔ آئین پاکستان میں اس بارے واضح مخصوص شرط رکھی گئی ہے۔ اس مدت میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔

’اگر الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ نئے اضلاع میں حلقہ بندیاں ضروری ہیں اور مردم شماری بھی لازمی ہے تو اس بارے میں بھی آئین میں شرط موجود ہے مگر یہ عمومی شرط ہے یعنی اگر الیکشن کمیشن انتظامی طور پر بننے والے اضلاع میں نئی حلقہ بندیوں کی بجائے پرانی پر الیکشن کرائے تو رکاوٹ نہیں، اسی طرح مردم شماری کے پہلے سے موجود نتائج پر بھی انتخاب ہوسکتا ہے۔‘

ان کے مطابق الیکشن کمیشن کو نیا تنازع کھڑا کرنے کی بجائے مقررہ وقت پر پنجاب میں انتخاب کرانا ہوں گے جس طرح ایم کیو ایم کے تحفظات کے باوجود سندھ میں کرائے گئے ہیں۔

مردم شماری اور حلقہ بندیاں کیوں ضروری ہیں؟

2017  میں ہونے والی چھٹی قومی مردم شماری کے عبوری نتائج تین جنوری 2018 کو شائع کیے گئے تھے اور اسی کے مطابق الیکشن کمیشن نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حد بندی کی تھی، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے عام انتخابات 2018 کے لیے آئین کے آرٹیکل 51 (5) کے تحت ایک مرتبہ کا استثنیٰ فراہم کیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 51 (5) اور الیکشنز ایکٹ2017 کے سیکشن 17 کے تحت حلقہ بندیاں سرکاری طور پر شائع ہونے والی آخری مردم شماری کے مطابق آبادی کی بنیاد پر کی گئیں۔

آئین میں 25ویں ترمیم کے تحت سابقہ فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیا تھا۔

فاٹا کے لیے مختص 12 نشستیں ختم کر دی گئی تھیں اور آبادی کی بنیاد پر خیبر پختونخوا کو چھ نشستیں دی گئیں۔

اس کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 272 سے کم ہو کر 266 رہ گئیں، اسی وجہ سے خیبر پختونخوا میں نئی حلقہ بندی لازمی تھی جو پاکستان کے ادارہ شماریات کی طرف سے مردم شماری کے سرکاری نتائج کی اشاعت نہ کرنے کی وجہ سے نہیں ہو سکی تھی۔

الیکشن کمیشن نے 11 اپریل کو اگلے عام انتخابات کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کے شیڈول کا اعلان کیا تھا جہاں اس سے قبل ای سی پی کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ وہ تازہ ڈیجیٹل مردم شماری کا انتظارنہیں کرے گا۔

الیکشن کمیشن کے افسرنے کہا کہ ڈیجیٹل مردم شماری تاحال شروع نہ ہونے کے پیش نظر نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پراگلے عام انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔

ساتویں مردم شماری اور خانہ شماری کے شیڈول پر نظرِ ثانی کی گئی ہے اور پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے فیلڈ آپریشن تاحال شروع نہیں ہوسکا۔

اس صورت حال کے پیش نظر عام انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیاں کرنا الیکشن کمیشن کے لیے مشکل ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس پنجاب اورآئندہ عام انتخابات موجودہ حلقہ بندیوں کی بنیاد پر کرانے کےعلاوہ کوئی راستہ نہیں ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول مردم شماری کا حتمی نوٹیفکیشن چار ماہ کے اندر ختم ہونے والی اسمبلیوں کی مدت کے ساتھ جاری کیا جائے گا، جبکہ حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن کمیشن کو چار سے چھ ماہ درکار ہوں گے۔

آئین کے آرٹیکل 51 (5) اور الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 17 (2) کے تحت حلقہ بندیوں کے لیے مردم شماری کے شائع شدہ حتمی اعداد و شمار ضروری ہیں اور مردم شماری کے نتائج باضابطہ طور پر شائع ہونے کے بعد الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں شروع کرنے کا پابند ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے حکومت سے ساتویں مردم شماری اور خانہ شماری کے باضابطہ نتائج سال کے آخر تک شائع کرنے کا مطالبہ کیا جارہا تھا، اصل شیڈول کے مطابق مردم شماری کا عمل یکم اگست 2022 سے شروع ہونا تھا۔

اس شیڈول کے مطابق نتائج 31 دسمبر تک اور حتمی نتائج فروری 2023 تک الیکشن کمیشن کے حوالے کیے جانے تھے۔

الیکشن کمیشن کو اس پر بھی تحفظات تھے اور وہ 31 دسمبر تک ابتدائی اعداد و شمار نہیں بلکہ حتمی نتائج چاہتے تھے۔

اسی طرح مردم شماری کے بلاک کوڈز کی تعداد میں اضافے یا کمی اور مختلف اضلاع میں بلاکس کی حدود میں تبدیلی کے نتیجے میں انتخابی فہرستوں پر نظر ثانی کی بھی ضرورت ہوگی۔

الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 14 کے تحت ایکایکشن پلان بھی عام انتخابات سے 4 ماہ قبل تیار کرنا ضروری ہے۔

کنور دلشاد نے کہا: ’پنجاب میں مقررہ وقت پر انتخاب کسی کی خواہش یا مخالفت میں نہیں ہوسکتا بلکہ انتظامی اورآئینی صورت حال کے پیش نظر ہی ہوگا لہذا پنجاب میں 90 دن کے اندر الیکشن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست