پرویز الٰہی اعتماد کے 186 ووٹوں سے کامیاب: سپیکر پنجاب اسمبلی

سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے کہا ہے کہ وزیراعلی پرویز الہی نے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا ہے اور انہیں 186 ووٹ ملے ہیں۔

گورنر پنجاب نے گذشتہ ماہ پرویز الٰہی کو وزیرِ اعلیٰ کے عہدے سے ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا (پرویز الٰہی ٹوئٹر)

سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے کہا ہے کہ وزیراعلی پرویز الہی نے آج دوران اجلاس اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا ہے اور انہیں 186 ووٹ ملے ہیں۔

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ ’صبح عدالت میں سماعت ہو گی، وہاں اعتماد کے ووٹ کا دن مقرر ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اعتماد کے ووٹ کو بلڈوز کیا گیا۔ اپوزیشن کے بائیکاٹ کے بعد پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ ’حکومت کے نمبر پورے نہیں تھے، ان کے پاس صرف  181 اراکین تھے تاہم کارروائی کو بلڈوز کر دیا گیا۔ اسمبلی نہ توڑنے کا حلف دے کر ممبران کو اسمبلی لایا گیا ، یہ جو بھی نمبر پیش کریں گے جعلی ہو گا۔‘

پنجاب اسمبلی کا اجلاس اپوزیشن اور حکومتی اراکین کی ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کے دوران جاری رہا اور بالاخر اپوزیشن کے بائیکاٹ کی صورت میں منتج ہوا۔

قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی نائب صدر چوہدری فواد حسین نے بدھ کی شام کہا کہ ان کی جماعت اور پاکستان مسلم لیگ ق پر مشتمل اتحاد کے پاس پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے لیے مطلوبہ نمبرز موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کی کارروائی جلد شروع ہو جائے گی۔

نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں چوہدری فواد حسین نے کہا: ’ہمارے پاس اعتماد کے ووٹ کے لیے نمبرز مکمل ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اس وقت ہمارے ممبران کی تعداد 185 ہے، ایک ممبر چکوال سے نکلے ہوئے ہیں اور ایک اور ممبر بہاولپور سے نکلے ہوئے ہیں۔ اگلی کچھ دیر میں جونہی تعداد پوری ہوتی ہے تو ہم اعتماد کا ووٹ لے لیں گے۔‘

فواد حسین چوہدری کا کہنا تھا کہ ’ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ آپ کسی بھی وقت اعتماد کا ووٹ لے سکتے ہیں۔ یہ ایجنڈے پر بھی پہلے سے موجود ہے۔ ہمارے نمبر اس وقت پورے ہیں، حالانکہ پیسے آفر کیے گئے۔‘

آج ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران کیا ہوا؟

لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

چوہدری پرویز الٰہی نے گورنر کی جانب سے خود کو ہٹائے جانے کے نوٹیفکیشن کو چیلنج کر رکھا ہے۔ پانچ رکنی بینچ نے 23 دسمبر کو نوٹیفکیشن پر عمل درآمد معطل کر دیا تھا۔

سماعت کے دوران عدالت نے قرار دیا کہ وزیر اعلی کو 24 گھنٹے 186 اراکین کی حمایت ہونی چاہیے۔

22 دسمبر کو پنجاب کے گورنر بلیغ الرحمٰن نے پرویز الٰہی کو وزیرِ اعلیٰ کے عہدے سے ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا۔ 

جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ ’گورنر وزیر اعلیٰ کو اعتماد کے ووٹ کا کہہ تو سکتا ہے؟ آخر میں تو اراکین نےہی فیصلہ کرنا ہے کہ کون وزیر اعلیٰ رہے گا۔ بیرسٹر علی ظفر بتا دیں کہ اعتماد کے ووٹ کے لیے کتنا وقت مناسب ہو سکتا ہے۔‘

عدالت نے آپشن دی کہ ’ہم ایک تاریخ مقرر کر دیتے ہیں آپ کے پاس پورا موقع تھا کہ اتنے دن میں اعتماد کا ووٹ لے لیتے۔‘

وزیر اعلی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’گورنر صرف اسی صورت وزیراعلی کو اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتے ہیں جب وزیراعلیٰ کو اکثریتی ارکان کی حمایت نہ رہے۔ اسمبلی سیشن کے دوران وزیراعلی کواعتماد کے ووٹ کا نہیں کہا جا سکتا۔‘

عدالت نے قرار دیا کہ ’ابھی تک یہ بھی اطمینان نہیں ہوا کہ فلور ٹیسٹ ہونا ہے یا نہیں، کیا آپ اس آفر کو قبول نہیں کر رہے؟‘

علی ظفر نے جواب دیا کہ ’اس کیس کو میرٹ پرہی سماعت کر لیا جائے۔‘

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’عدالتی فیصلے کو گزرے 20 دن ہو گئے، ابھی تک اعتماد کے ووٹ کا کیوں نہیں سوچا؟ عدالت یہ بھی جائزہ لے گی کہ جو سیشن چل رہا ہے اس میں بھی وزیر اعلیٰ کو اعتماد حاصل ہے یا نہیں۔‘

پرویز الٰہی کے وکیل نے دلائل دیے کہ ’گورنر نے جب وزیر اعلیٰ اور کابینہ کو ہٹایا تو تحریک عدم اعتماد بھی واپس لے لی، ہم تحریک عدم اعتماد کے لیے تیار تھے۔‘

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’تحریک عدم اعتماد کے لیے اپوزیشن کو 186 ارکان لانا تھے۔ پہلے بھی 189 ووٹ ملے تو پرویز الٰہی وزیر اعلی بنے۔ یہ سیاسی گیم کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ تو آئین کے ساتھ فراڈ کے مترادف ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اعتماد کے ووٹ کے لیے گورنر سپیکر کو اجلاس بلانے کے لیے کہتا ہے۔ گورنر اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتا ہے لیکن اجلاس کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار سپیکر کو ہے، سپیکر پہلے سے اجلاس کر رہے ہیں۔

سپیکر کو اعتماد کے ووٹ کے لیے اجلاس بلانے کا وزیر اعلیٰ بھی نہیں کہہ سکتے، سپیکر کے اجلاس نہ بلانے پر وزیراعلی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔‘

جسٹس عاصم حفیظ نے قرار دیا کہ ’آئین کے تحت گورنر اور سپیکر غیر جانبدار ہوتے ہیں، یہاں گورنر اور سپیکر جماعتوں کےترجمان بنے ہوئے ہیں۔‘

اس معاملے پر عدالت نے بیرسٹر علی ظفر سے ستفسار کیا کہ گورنر وزیر اعلیٰ کو دوران اجلاس اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتا ہے یا نہیں؟ تو علی ظفر نے جواب دیا کہ ’ہمیں اعتماد کا ووٹ لینے سے انکار نہیں مگر بات اصول کی ہے۔ گورنر ایوان کی اکثریت کی درخواست کے بغیر اعتماد کا ووٹ لینے کا نہیں کہہ سکتے۔‘

عدالت نے منظور وٹو کیس کے حوالے سے ریفرنس کی تفصیل بھی پوچھی، اس کیس کے معاملہ پر دلائل ابھی ہونا باقی ہیں تاہم عدالت نے کیس کی سماعت کل بروز جمعرات صبح نو بجے تک ملتوی کر دی، جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے اپنے عہدے پر برقرار رہنے کے حکم میں بھی کل تک توسیع ہو گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست