جولائی 2025 تک 82 فیصد کیس نمٹا دیئے گئے: کمیشن برائے جبری گمشدگی

جولائی کے مہینے میں کمیشن نے 70 کیس نمٹائے اور 15 نئی شکایات بھی رجسٹرڈ کیں۔

اسلام آباد میں 22 جنوری، 2024 کو لاپتہ افراد کے لیے کیے گئے مظاہرے میں ان افراد کی تصاویر لگی دیکھی جا سکتی ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے انکوائری کمیشن کا کہنا ہے کہ جولائی 2025 کے اختتام تک وہ 82 فیصد کیس نمٹا چکا ہے۔

جعمے کو ایک اعلامیے میں بتایا گیا کہ چیئرمین جسٹس (ر) ارشد حسین شاہ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد کمیشن نے گمشدہ افراد کے مسئلے کے حل کے لیے کئی اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ کمیشن کو اب تک مبینہ جبری گمشدگیوں کے متعلق 10,607 کیسز موصول ہو چکے ہیں، جن میں سے 31 جولائی 2025 تک 8,770 کیسز، یعنی 82 فیصد، نمٹا دیے گئے ہیں۔ 

جولائی کے مہینے میں کمیشن نے 70 کیس نمٹائے اور 15 نئی شکایات بھی رجسٹرڈ کیں۔ اس کے علاوہ، کمیشن نے وفاقی حکومت کی جانب سے گمشدہ افراد کے خاندانوں کی مالی معاونت کے لیے 50 لاکھ روپے کے پیکج پر عمل درآمد بھی شروع کر دیا ہے۔

اعلان کے مطابق جسٹس (ریٹائرڈ) سید ارشد حسین شاہ کو جبری گمشدگیوں پر قائم انکوائری کمیشن کا نیا چیئرمین تعینات کیا گیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد ملک میں جبری گمشدگیوں کے بڑھتے ہوئے مسئلے کا مؤثر حل تلاش کرنا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیئرمین نے فرائض سنبھالنے کے بعد مالی معاونت کے کیسز کی سفارشات پیش کرنے کے لیے دو اجلاسوں کی صدارت کی۔ اس ضمن میں جسٹس (ر) نذر اکبر کو سندھ، اور ریٹائرڈ جج محمد بشیر کو اسلام آباد کا ممبر تعینات کیا گیا ہے۔ جبکہ خیبر پختون خوا میں جبری گمشدگیوں کے معاملات سے نمٹنے کے لیے جسٹس (ر) سید افسر شاہ کو ممبر مقرر کیا گیا ہے۔

کمیشن کے چیئرمین نے گمشدگیوں کے معاملات کی تفتیش کے لیے یکساں پالیسی کی تشکیل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے لاہور اور کراچی کا دورہ بھی کیا، جہاں انہوں نے 50 سے زائد کیسز کی سماعت کی۔ 

چیئرمین جسٹس (ر) سید ارشد حسین شاہ نے پنجاب، خیبر پختون خوا، اسلام آباد، اور سندھ کے داخلہ سیکرٹریز اور پولیس کے آئی جیز سے بھی ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد تمام صوبوں، اسلام آباد، اور پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی مشترکہ تفتیشی ٹیمز اور صوبائی ٹاسک فورسز کے لیے جامع رپورٹس بروقت جمع کرانے پر زور دینا تھا۔

یہ اقدامات وفاقی حکومت کی جانب سے گمشدہ افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک اہم پیش رفت ہیں، جو کہ ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال کو بہتر بنانے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔

پاکستان کی وفاقی حکومت نے مارچ 2011 میں کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈسایپیرینس (COIED) کی تشکیل کی، جس کا مقصد، دیگر امور کے علاوہ، 'مبینہ طور پر جبری طور پر غائب ہونے والے افراد کی موجودگی کا پتہ لگانا‘ اور ’ذاتی یا تنظیمی طور پر ذمہ دار افراد کی ذمہ داری کا تعین کرنا‘ ہے۔

اگرچہ کمیشن نے کئی کیسز میں افراد کی موجودگی کا پتہ لگایا ہے، لیکن اس جرم کی ذمہ داری متعین کرنے کی کوئی واضح کوشش نہیں کی گئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل