اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جمعے کو مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ’ریاست جبری گمشدگیوں میں ملوث ہے۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جبری گمشدگیوں سے متعلق کیسز میں سابق وزیر داخلہ شیخ رشید اور موجودہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ سے بیان حلفی بھی طلب کیا ہے۔
لاپتہ افراد سے متعلق چھ کیسز پر سماعت سال 2021 سے جاری ہے۔ ان چھ کیسز میں صحافی اور بلاگر مدثرنارو کی بازیابی کا کیس بھی شامل ہے۔
واضح رہے کہ وفاقی کابینہ نے لاپتہ افراد کے معاملے پر وزرا پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہوئی ہے۔
سماعت شروع ہوتے ہی چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو عدالت کا گزشتہ حکم (لاپتہ افراد کو بازیاب کر کے پیش کرنے) پڑھنے کے لیے کہا۔ چیف جسٹس نے حکم پر عملدرآمد نہ ہونے سے متعلق سوال کرتے ہوئے کہا کہ ’عدالت کو کمیٹیوں میں نہ پھنسایا جائے، حکومت کاایکشن کہاں ہے؟ عدالت eye wash نہیں مانے گی۔‘
ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’تفتیشی ایجنسیاں اپنی کوشش کر رہی ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اب بھی روزانہ لوگ اٹھائے جا رہے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔‘ عدالت نے وفاقی حکومت کو پرویز مشرف اور ان کے بعد کے تمام وزرائے اعظم کو نوٹسز جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔
انہوں نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ نوٹسزاور بیان حلفی کہاں ہیں؟ یہ اہم ترین معاملہ ہے اور اس میں ریاست کا یہ رویہ ہے؟‘
عدالت نے گذشتہ سماعت کے دوران حکم پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں موجودہ اور سابقہ وزرائے داخلہ کو پیش ہونے کا کہاتھا۔ وزرائے داخلہ کی عدالت میں غیر حاضری سے متعلق چیف جسٹس نے کہا ’کیا یہ اچھا لگے گا کہ یہ عدالت چیف ایگزیکٹو کوطلب کرے؟ تمام حکومتیں آئین اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ یہ معاملہ وفاقی حکومت اور تمام سیاسی قیادت کےلیے ترجیح ہونا چاہیے تھا۔‘
عدالت کی جانب سے دیے گئے حکم ’لاپتہ افراد کی مشکلات عوام تک پہنچانے کے لیے اقدامات کرنے‘ سے متعلق چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ کیا وفاقی حکومت نے پیمرا کو ہدایات جاری کیں؟
وزارت اطلاعات کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ معاملے سے متعلق پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن کو لکھ دیا گیا تھا۔ جس کےجواب میں چیف جسٹس کا کہنا تھا ’اس کے بعد مسنگ پرسنز سے متعلق کتنے پروگرامز ہوئے ہیں؟‘
سماعت کے دوران وکیل کرنل (ر) انعام الرحیم نے عدالت کو بتایا کہ چونکہ وہ لاپتہ افراد سے متعلق بات کرتے ہیں اس لیے ان پر ٹیلی وژن پر آنے کی پابندی لگائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف سے لے کر آج تک ’لوگوں کو جبری گمشدہ کرنا ریاستی ادارے کی پالیسی ہے۔‘
انہوں نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے دس کیس موجود ہیں جہاں افراد لاپتہ ہوئے اور بعد میں پتہ چلا کہ ان کا ٹرائل چلا کر سزا سنا دی گئی۔ انہیں بعد میں جیل سے معلوم ہوا کہ ان افراد میں کچھ کو تو سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ فوجی عدالتوں کا آرڈیننس ختم ہونے کے باوجود بھی ان کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سزا سنائی گئی۔ جبکہ ان کے ورثا کو اس سے متعلق بعدمیں جیل سے معلوم ہوا۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کابینہ کی بنائی گئی کمیٹی کو ’نہ ہونے کے برابر‘ کہتے ہوئے سوال کیا کہ ’عدالت ان جبری گمشدگیوں کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائے؟ یا تو یہ بتا دیں کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست ہے۔‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’پولیس، انٹیلی جنس بیورو اور افواج کی ایجنسیوں پر بھی الزام لگایا جاتا ہے۔ وزیر دفاع کس کے ماتحت ہے؟ یا تو وزیراعظم کہہ دیں کہ وہ بے بس ہیں اور اگر وہ بے بس نہیں تو آئین انہیں ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ وزیر اعظم کو پھر اس عدالت کے سامنے یہ کہہ دینا چاہیے تاکہ عدالت کسی کے خلاف کارروائی کرے۔‘
چیف جسٹس نے جبری گمشدگیوں سے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’ریاست جبری گمشدگیوں میں ملوث ہے، اس ملک میں ماورائے عدالت قتل کیے جاتے رہے ہیں، پولیس کرتی رہی ہے۔‘
سماعت کے دوران لاپتہ افراد سے متعلق کابینہ کی طرف سے تشکیل کردہ کمیٹی کا نوٹیفکیشن عدالت کے سامنے پیش ہوا جس کے بعدعدالت کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت بادی النظر میں عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کرتے ہوئے ناکام رہی، وفاقی حکومت نے لاپتہ افراد کامعاملہ سنجیدہ نہیں لیا۔
عدالت نے حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزرات داخلہ 25 مئی کے اس عدالتی حکم پر عمل درآمد یقینی بنائے جبکہ کیس میں مزید کوئی بھی التوا اور فریقین کو آئندہ سماعت تک دلائل نہ دینے کا کہتے ہوئے سماعت چار جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔