پنجاب: عدالتی فیصلے سے آئینی و سیاسی استحکام کا کتنا امکان؟

چوہدری پرویز الٰہی نے گورنر پنجاب کی جانب سے خود کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔

پنجاب میں ایک مرتبہ پھر آئینی اور سیاسی بحران جاری ہے اور ایک سال میں تیسری بار صوبائی اقتدار کے تخت پر حکمرانی تبدیل ہونے کے بعد بھی یہ رسہ کشی ختم نہیں ہوسکی ہے۔

اب صوبائی حکومت اور اپوزیشن کی نظریں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر جمی ہیں، جہاں وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے معاملے پر اہم سماعت جاری ہے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کا پانچ رکنی بینچ درخواست پر سماعت کر رہا ہے۔

گورنر پنجاب نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت پر عمل نہ کرنے پر چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس کے بعد پنجاب حکومت نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔

عدالت عالیہ نے 25 دسمبر کو ہونے والی گذشتہ سماعت پر گورنر کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کو معطل کر کے وزیراعلیٰ کو کام جاری رکھنے کا حکم دیا تھا، تاہم انہیں اسمبلیاں تحلیل کرنے سے روک دیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنے کے لیے طریقہ کار موجود ہے، اور یہ بالکل ممکن نہیں کہ گورنر اچانک صبح اٹھ کر وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا بولیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پانچ ماہ قبل وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کر دی تھی، اور آئین میں اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار منتخب نمائندے یعنی وزیراعلیٰ کو دیا گیا ہے۔ 

ایک موقعے پر جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ موجودہ کیس میں گورنر نے 19 دسمبر کو وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا کہا تھا، جبکہ جسٹس عابد عزیز شیخ نے دریافت کیا: ’اگر گورنر کہتے کہ اعتماد کا ووٹ 10 دن میں لیں تو پھر کیا ہوتا؟‘  

اس پر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ 19 دسمبر کو پہلے تحریک عدم اعتماد آئی، اور اس کے 20 منٹ بعد گورنر نے بھی اپنا حکم جاری کردیا، اور اس ساری کہانی کا مقصد اسمبلی کی تحلیل کو روکنا تھا۔ ’23 دسمبر کو عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لی گئی۔‘

پنجاب کی حکومت اور اپوزیشن کی آئندہ حکمت عملی بھی عدالتی فیصلے کی منتظر ہے۔ اس معاملے میں دونوں فریقین ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا دعویٰ کر رہے ہیں جبکہ پنجاب اسمبلی کے دو دن سے جاری سیشن میں اور ایوان کے باہر تلخی بڑھتی جارہی ہے۔

مسلم لیگ ن کی وفاقی قیادت نے بھی پنجاب اسمبلی میں اجلاس کیے جبکہ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما بھی دو دن سے اسمبلی کے احاطے میں پارٹی اراکین کی حوصلہ افزائی کے لیے موجود دکھائی دیے۔

منگل کو پنجاب اسمبلی سے جاتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی گاڑی پر جوتا پھینک دیا گیا، تاہم جوتا پھینکنے والے ڈرائیور کو اسمبلی سکیورٹی نے حراست میں لے لیا۔

اسی طرح ایوان میں بھی مسلم لیگ ن کی قیادت کے خلاف پی ٹی آئی اراکین نعرے بازی کرتے رہے۔ اسمبلی کی گیلری میں موجود رانا ثنا اللہ اور عطاء اللہ تارڑ پر صوبائی وزیر میاں محمود الرشید نے شدید تنقید کی۔

مسلم لیگ ن کے اراکین نے بھی پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے اسمبلیاں تحلیل کرنے اور وزیراعلیٰ کے اعتماد کا ووٹ لینے کے اعلان پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا اور شدید نعرے بازی کی گئی۔

رانا مشہود احمد خان نے ایوان میں سپیکر اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اعتماد کا ووٹ آپ کی آئینی ذمہ داری ہے۔ ہمت ہے تو ابھی ووٹ لیں، ابھی جواب دیں گے کہ ایوان کس کے ساتھ ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پیر کو چار بار فلور مانگا ہے کہ ووٹنگ کروائیں، قوم کو گمراہ نہ کریں، قوم آٹا چوروں کا احتساب مانگتی ہے۔‘

دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ’چوہدری پرویز الٰہی کے پاس 188 اراکین اسمبلی پورے ہیں۔ کل عدالت کے فیصلے کے بعد آئندہ کی حکمت عملی بنائیں گے۔‘

فواد چوہدری نے ہارس ٹریڈنگ کے الزامات عائد کرتے ہوئےکہا کہ ہماری آرمی چیف سے درخواست ہے کہ ان معاملات کی انکوائری کروائیں۔

صوبے میں سیاسی استحکام کا کتنا امکان ہے؟

اس سوال کے جواب میں سینیئر صحافی سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’تحریک انصاف کو اکثریت یعنی 186 اراکین کی حمایت حاصل نہیں کیونکہ پرویز الٰہی خود کہہ کر اعتماد کا ووٹ نہیں لے رہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی اجلاس پیر سے شروع ہوا، اس کے ایجنڈے میں ہی اعتماد کا ووٹ لینا شامل نہیں۔ اسی طرح پنجاب میں کابینہ و حکومتی اراکین اسمبلی خود بھی اسمبلیاں تحلیل کی خواہش نہیں رکھتے۔

بقول سلمان غنی: ’گورنر کی جانب سے پہلے نوٹیفکیشن پر ہی پرویز الٰہی کو تعداد پوری ہونے کا یقین ہوتا تو وہ اعتماد کا ووٹ لے لیتے، دوسرا یہ کہ اگر وہ اس میں کامیاب ہوتے بھی ہیں تو اسمبلیاں تحلیل کرنا پڑیں گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ’پرویز الٰہی کو نہ حمایت کا یقین ہے اور نہ ہی اسمبلیوں کی تحلیل میں کوئی رکاوٹ دکھائی دیتی ہے، اس لیے وہ عدالت کا سہارا لے رہے ہیں تاکہ معاملہ لٹکا رہے۔ کوئی بھی فیصلہ اس وقت قابل عمل نہیں کہ نہ وہ اعتماد کا ووٹ لے سکتے ہیں، نہ ہی اسمبلیاں تحلیل کرنا چاہتے ہیں۔‘

دوسری جانب اینکر اور تجزیہ کار تنزیلہ مظہر سمجھتی ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے معاملہ حل نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وفاقی حکومت کی دلچسپی بھی صرف اسمبلیاں برقرار رکھنے تک ہے، انہیں حکومت لینے میں دلچسپی نہیں لگتی۔‘

تنزیلہ کے بقول: ’پہلے تو عدالتی فیصلہ ہی زیادہ جلدی آتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ اس معاملے پر سماعت چلنی ہے، دوسرا یہ کہ فریقین بھی ایسے ہی چلتا رہنے پر خوش لگتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مسئلہ صرف عمران خان کے اعلان پر اسمبلیوں کی تحلیل روکنا ہے، جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں زیادہ فائدہ سمجھ رہے ہیں۔‘

بقول تنزیلہ: ’اپوزیشن کے پاس بھی 186 اراکین نہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی موجودگی میں منحرف اراکین کی حمایت بھی ممکن نہیں۔ اگر عدالتی فیصلہ آتا ہے کہ پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لیں اور وہ 186 اراکین کی حمایت ظاہر نہ کرسکے تو پھر رن آف الیکشن یعنی ’جس کی اکثریت اس کی حکومت‘ کا فامولہ لگے گا۔ اس کے لیے کئی دن گزر جائیں گے تو معاملہ وہیں کا وہیں رہے گا کیونکہ اس وقت تک الیکشن قریب آچکا ہوگا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’مونس الٰہی بھی منظر عام پر دکھائی نہیں دے رہے جو عمران خان کے ساتھ رابطے میں تھے، لہذا اب دونوں فریقین موجودہ حالت میں وقت گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

تاہم حتمی طور پر پنجاب میں حکومت تبدیل ہوگی، اسمبلیاں تحلیل ہوں گی یا نہیں، اس کا انحصار عدالت کے فیصلے پر ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست