اسلام آباد کے ’ریڈ انڈین‘ کہاں جائیں؟

وفاقی دارالحکومت کے ’ریڈ انڈین‘ اپنے مسائل کے حل کے لیے کہاں جائیں؟ کیا آباد کار اشرافیہ کے پاس، مقامی باشندوں کے اس سوال کا کوئی جواب ہے؟

اسلام آباد میں 23 اپریل 2023 کو فیصل مسجد کے قریب مرکزی شاہراہ پر لوگوں کی بڑی تعداد سفر کر رہی ہے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

اسلام آباد کے ریڈ انڈین یعنی پرانے رہائشی اپنے مسائل کے حل کے لیے کہاں جائیں؟ کیا آباد کار اشرافیہ کے پاس، مقامی باشندوں کے اس سوال کا کوئی جواب ہے؟

اسلام آباد کے دو حصے ہیں۔ ایک آباد کاروں کا اسلام آباد ہے جس میں اہل اقتدار، ان کی افسر شاہی، اشرافیہ اور ان کے خدام رہتے ہیں۔  وسائل پر قابض یہ ایک چمکتا دمکتا، طاقتور اسلام آباد ہے۔

دوسرا ریڈ انڈین کا اسلام آباد ہے جہاں مقامی لوگ آباد ہیں۔ یہ ایک ٹھکرایا ہوا، سوتیلا، سسکتا اور بے بس اسلام آباد ہے۔ ریڈ انڈین کے ان علاقوں کو آبادکار طبقہ ازرہ مروت ’دیہی اسلام آباد‘ کہتا ہے۔

آباد کاروں کا اسلام آباد کل شہر کا صرف 30 فیصد ہے لیکن 90 فیصد سے زیادہ بجٹ کھا جاتا ہے اور ریڈ انڈین کا اسلام آباد شہرِ اقتدار کا 70 فیصد ہے لیکن اس کے حصے میں 10 فیصد بھی نہیں آتا۔

سی ڈی اے کے ہزاروں ملازمین، آباد کاروں کے شہر کے مسائل کے حل کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں لیکن ریڈ انڈین کے اسلام آباد کا کوئی پرسان حال نہیں۔

چنانچہ آباد کاروں کے اسلام آباد سے روزانہ نو ہزار میٹرک ٹن کوڑا اٹھایا جاتا ہے لیکن ریڈ انڈین کے اسلام آباد سے کوڑا اٹھانے کا سرے سے کوئی بندوبست ہی نہیں۔

حکمران جماعت کے دو ایم این ایز کے گھروں کے درمیان، ترامڑی چوک پر، کوڑے کے ڈھیر سے ہر وقت تعفن اٹھتا ہے لیکن کسی کو پروا نہیں۔ یہی حال گردو نواح کی بستیوں کا ہے۔

ایسا نہیں کہ ریڈ انڈین کی بستیاں، آبادکاروں کے اسلام آباد سے بہت دور ہوں اور وہاں عملے کا پہنچنا مشکل ہو۔  بارہ کہو تو ایوان صدر اور پارلیمان سے تقریباً چار کلومیٹر کی مسافت پر ہے لیکن غلاظت کے انبار لگے ہیں۔ نہ سڑکیں ٹھیک ہیں، نہ سیوریج کا کوئی ڈھنگ کا بندوبست ہے۔ سڑکوں پر گٹر کھلے ہیں اور چوراہوں میں کوڑے کے ڈھیر۔ آباد کار اشرافیہ نے اپنی سہولت کے لیے بائی پاس بنا لیا ہے۔ ان کی جانے بلا کہ اسلام آباد کے ریڈ انڈین کا بارہ کہو کس حال میں ہے۔

آباد کاروں کے شہر میں چمکتے دمکتے سکول ہیں، حکومتی شخصیات ہوں یا میڈیا، کارروائی ڈالنے کے لیے انہی اداروں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ سکول بسیں بھی ان ہی کو عطا فرمائی جاتی ہیں۔

لیکن ریڈ انڈین کے علاقوں میں سکولوں میں اساتذہ کی تعداد ہی پوری نہیں ہو پاتی۔ سکولوں کی چاردیواریاں کہیں ہیں، کہیں نہیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ انکشاف تو ابھی کچھ ماہ پہلے ہی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے اپنے دورہ کے بعد خود کیا کہ بارہ کہو کے علاقے میں ایسے سکول بھی ہیں جن میں پانی کا کولر واش روم کے اندر رکھا جاتا ہے کیونکہ سکولوں کی چاردیواری نہیں ہے۔ آباد کاروں کے اسلام آباد کے بچوں کے پینے کا پانی ایک دن واش روموں میں رکھا جائے تو آباد کار قیامت ڈھا دیں لیکن ریڈ انڈین کے بچے بےیارومدد گار ہیں۔

اسلام آباد کے ریڈ انڈین کے علاقوں کی درجنوں یونین کونسلیں ہیں لیکن ڈھنگ کا کوئی ایک تعلیمی ادارہ نہیں ہے۔ کوئی ایک ایسا سرکاری ہسپتال نہیں ہے جہاں معقول علاج کی کوئی سہولت دستیاب ہو۔

مواصلات کے اس جدید دور میں عالم یہ ہے کہ ریڈ انڈین نے ملوٹ جیسی بستیوں میں منت سماجت کر کے پاکستان پوسٹ والوں سے کہہ رکھا ہے کہ ہم ڈاک خانے اپنے گھروں میں بغیر تنخواہ کے بنا لیتے ہیں، بس آپ از راہ مروت ڈاک پہنچاتے رہیے، آگے ہم خود ہی تقسیم کر لیں گے۔

یہ بندوبست اسی طرح چل رہا ہے۔ تصور کیجیے اور سر پیٹ لیجیے، یہ گئے وقتوں کی کہانی نہیں، یہ اس دور کا واقعہ ہے اور دارالحکومت کا یہ حال ہے۔

غالباً پچھلے سال ایک معمولی سی رقم دیہی اسلام آباد کے لیے رکھی گئی لیکن اس کی کوئی تفصیل دستیاب نہیں کہ وہ کہاں خرچ کی گئی۔ دیہی اسلام آباد کے ریڈ انڈین نہ اپنا مطالبہ کسی کے سامنے رکھ سکتے ہیں نہ کوئی سوال پوچھ سکتے ہیں۔

حالت یہ ہے کہ راول ڈیم کے اخراجات بھی دیہی بجٹ میں ڈال دیے گئے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریڈ انڈین کو واٹر سپلائی کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ وہ اپنی بورنگ سے گزارا کرتے ہیں۔

آباد کاروں کے اسلام آباد کے مزے ہیں۔ ان کے مسائل تو کہے سنے بغیر ہی حل ہو جاتے ہیں۔ لیکن دیہی اسلام آباد کے ریڈ انڈین اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ کوئی مقامی حکومت ہے جسے وہ اپنی بات سنا سکیں۔ نہ افسر شاہی ان کی بات سنتی ہے، نہ ہی یہاں کوئی صوبائی اسمبلی ہے۔

وزیراعلیٰ کے اختیارات چیف کمشنر نام کے ایک افسر کے پاس ہیں اور ریڈ انڈین چاہیں بھی تو اس نو آبادیاتی حاکم سے ملاقات نہیں کر سکتے۔

شہرِ اقتدار پر جب کبھی سیاسی جتھے یلغار کرتے ہیں تو آبادکار اپنے علاقوں کو کنٹینر لگا کر محفوظ کر لیتے ہیں اور ریڈ انڈین کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ آبادکاروں کے علاقوں میں جا سکیں۔ وہ اِدھر کے رہتے ہیں نہ اُدھر کے۔

آباد کاروں نے ریڈ انڈین کی تہذیب اور اس کے نقوش تک مٹا ڈالے ہیں۔ سیکٹروں کے نام ایسے بے روح رکھے ہیں جیسے ان کا انسانی تہذیب سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہ سیکٹر جی ہے وہ سیکٹر ایف ہے۔ کتنے ہی گاؤں مسمار ہوئے تو آبادکار یہاں آ سکے۔ ان بستیوں کے نام بھی رکھے جا سکتے تھے لیکن یہاں اہتمام ہے کہ وہ قدیم تہذیب مٹا دی جائے۔

جن بستیوں کو خالی کروایا گیا ان کے قبرستان ایک معاہدے کے تحت موجود تو ہیں لیکن ان کے گرد باڑ لگا دی گئی ہے اور قبرستان میں جانے کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا۔

لوگ سڑک پر گاڑی کھڑی کر کے اپنے بڑوں کا فاتحہ پڑھنے لگیں تو ٹریفک پولیس ان کا چالان کر دیتی ہے۔ ای سیون جو کبھی ڈھوک جیون ہوتا تھا، اس کے قبرستان کی آخری قبروں کے نشان بھی اب پارک میں مٹ چکے۔

ریڈ انڈین کے علاقوں میں کبھی ہیوی مشینری آئے بھی تو ترقیاتی کاموں کے لیے نہیں، بلکہ انہیں بے دخل کرنے کے لیے آتی ہے۔ معمولی معاوضے پر ان کی زمینیں ہتھیا کر وہاں پوش سیکٹر اور ٹاؤن بنا دیے جاتے ہیں۔

جن کی زمینیں ایکوائر ہونے سے بچ گئیں، وہ اگر اپنی ہی ملکیتی زمینوں پر، اپنے بچوں کے لیے کوئی اضافی کمرہ بنا لیں تو یہ گھر ناجائز قرار پاتا ہے۔ آبادکاروں کی بستی کے فیصلہ ساز ان پر چڑھ دوڑتے ہیں اور شہر میں کسی کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اصل کہانی کیا ہے۔

جو لوگ دور دراز کے علاقوں کے مسائل پر روتے ہیں، انہیں چاہیے ملک کے دارالحکومت تشریف لائیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ اس شہرِ اقتدار کے 70 فیصد حصے میں مقامی ریڈ انڈین کس حال میں رہ رہے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر