جب فیلڈ مارشل ایوب خان نے زمام کار سنبھالا تو وہ ملک کے زمینی حقائق اور معروضی حالات کو سمجھے بغیر اپنی مخصوص سیاسی بصیرت و ذکاوت کی بنیاد پر پاکستان میں ’جبری جدیدیت و بنیادی جمہوریت‘ نافذ کرنا چاہتے تھے۔
ان کے دور حکومت میں تمام مذہبی جماعتیں بالعموم اور جماعتِ اسلامی بالخصوص زیر عتاب رہیں۔ بعد ازاں جماعت اسلامی نے جنرل ضیاالحق کے عہدِ حکمرانی میں ان کے سیاسی مشیر و حلیف بن کر حساب خوب چکتا کیا۔ بعینہ جمعیت علمائے اسلام عہد ضیائی میں راندۂ درگاہ ٹھہری اور بعد ازاں تمام مذہبی حلقوں کے برعکس، جو جذبۂ ایمانی سے سرشار پیپلز پارٹی کی حکومت کو عورت کی حکمرانی سے تعبیر دے کر سراپا احتجاج تھے، مولانا فضل الرحمن نے کمال ادائے بے نیازی کے ساتھ عورت کی حکمرانی کو نہ صرف اسلامی تحفظ فراہم کیا بلکہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں مشیر و وزیر کے مناصب جلیلہ پر بھی جلوہ افروز ہوئے۔
کچھ ایسے ہی نامساعد حالات اور سیاسی بندشوں کا سامنا آج تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو بھی ہے جس پر سانحہ مریدکے کے بعد انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم تنظیم قرار دے کر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ گو کہ ایسی پابندی ٹی ایل پی پر 2021 میں بھی عائد کی گئی تھی جو چند ہی ماہ بعد قصہ پارینہ ٹھہری۔
ٹی ایل پی سے پہلے ایسی پابندیاں بہت سی مذہبی جماعتوں، جیسا کہ سپاہ صحابہ، سنی تحریک اور لشکرِ طیبہ پر بھی عائد کی گئیں جو کارگر ثابت نہ ہو سکیں۔ مثلاً کچھ عرصہ قبل لشکر طیبہ پر انڈین پارلیمان پر حملے کے الزام میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ لشکرِ طیبہ نہ صرف اپنے مخصوص جہادی منہج پر کاربند رہی بلکہ ایک نئے نام ’جماعت الدعوہ پاکستان‘ کے ساتھ ظہور پذیر ہوئی۔
حالیہ ایف اے ٹی ایف کی بندشوں کی سنگینی کا بروقت ادراک کرتے ہوئے لشکر طیبہ اپنے دیرینہ و دلپذیر سیاسی نعرے ’خلافت کا قیام‘ کو تیاگ کر ’پاکستان مرکزی مسلم لیگ‘ کے نام سے سیاسی جماعت کا اعلان کر کے مشرف بہ جمہوریت ہو چکی ہے۔
شاہ احمد نورانی کے انتقال پرملال (2003) اور 2007 میں سانحۂ نشتر پارک میں سنی تحریک کی سر برآوردہ سیاسی شخصیات کی موت پاکستان میں صوفی بریلوی سیاست کے ارتحال کا سبب بنیں۔ مگر سانحۂ نشتر پارک کے چند ہی سال بعد مشہورِ زمانہ آسیہ مسیح کیس میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی مبینہ اعانت کی وجہ سے، ان کے سرکاری سکیورٹی گارڈ ممتاز قادری کے ہاتھوں قتل (2011) کے نتیجے میں، ملک بھر میں بالعموم اور صوبہ پنجاب میں بالخصوص صوفی و بریلوی سیاست کا ایک نیا مگر پرتشدد باب کھل گیا۔
ان واقعات کی وجہ سے مولانا خادم حسین رضوی (داتا دربار سے متصل محکمہ اوقاف کے زیرانتظام پیر مکی مسجد کے سابقہ خطیب اور جماعت فدائین ختمِ نبوت پنجاب کے امیر) اور مولانا آصف اشرف جلالی (سنی اتحاد کونسل 2009 کے سرگرم رکن) پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر مقبول ہوتے ہیں۔ ان علما نے اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن پر ممتاز حسین قادری کی رہائی کے لیے سیاسی و مذہبی دباؤ بڑھانے کے لیے ’غازی بچاؤ‘ تحریک کا آغاز کیا۔
اس تحریک سے منسلک پنجاب بھر کے معروف گدی نشینوں اور بریلوی علما نے کمالِ ہنرمندی کے ساتھ گستاخیٔ رسول اور اس سے منسلک قوانین میں ممکنہ تبدیلی کے خدشے کو پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ نیز انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو بالعموم اور مسلم لیگ ن کو بالخصوص نشانہ بناتے ہوئے ممتاز حسین قادری کا قاتل، اسلام دشمن اور کافر جماعتیں قرار دے کر عوامی بیانیہ ترتیب دیا۔
عوامی مقبولیت کے ان برسوں میں ان دونوں علما نے اپنی سیاسی پارٹی تحریک لبیک یا رسول اللہ کا اعلان کیا اور چند ہی ماہ بعد پارٹی کی امارت کے مسئلے پر باہم دست و گریبان ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں مولانا آصف جلالی نے خادم حسین رضوی سے برات اور ایک الگ سیاسی جماعت بنام تحریک لبیک اسلام کا اعلان کیا، جب کہ دوسری طرف خادم حسین رضوی تحریک لبیک پاکستان کے امیر کے طور پر سامنے آئے۔
خادم حسین رضوی اپنے حافظے، فارسی و عربی قادرالکلامی، اشعار اقبال کا سیاست کے لیے استعمال، شعلہ بیانی اور ٹھیٹھ عوامی پنجابی انداز میں مجمع لوٹنے کی صلاحیتوں کے باعث چند ہی برسوں میں نہ صرف آصف جلالی کو عوامی سطح پر پچھاڑنے میں کامیاب رہے، بلکہ اپنے متحرک و منتقم مزاج سیاسی بیانیے کی بدولت جمعیت علمائے پاکستان، سنی تحریک اور باقی ماندہ غیر فعال اور سیاسی طور پر متذبذب صوفی بریلوی ووٹروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے اور طالبان کے پاکستان بھر میں صوفیانہ مراکز پر سالہا سال حملوں کے تناظر میں تحریکِ لبیک پاکستان کو صوفی و بریلوی پیروکاروں کی ’واحد‘ نمائندہ مزاحمتی سیاسی جماعت بنانے میں بھی کامیاب ہو گئے۔
اسی مزاحمتی سیاست کا شاخسانہ ہے کہ صوفی بریلوی آبادی کا بیشتر طبقہ، جو پرامن اسلام اور باطنی تطہیر کا قائل تھا، پرتشدد رویوں میں تبدیل ہو گیا۔ ان کے جلوسوں کا مقصد عشق رسول کے نام پر دوسرے فرقوں کی عوامی تکفیر اور دیگر سیاسی جماعتوں کے بارے میں دشنام طرازی کرنا تھا، جس کی عملی صورت پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر ماورائے عدالت قتل کے بڑھتے ہوئے غیر انسانی واقعات ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹی ایل پی کی تشکیل، ساخت، سیاست اور سیاسی اثاثوں کی تفہیم کے معاملے میں ہمارے مبصرین اور سیاسی و عسکری کارپرداز مسلسل علمی مغالطے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ان کے نزدیک ٹی ایل پی کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ نے قاضی فائز عیسیٰ کے مشہورِ زمانہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پڑھ رکھا ہو، نیز اس فیصلے کی روشنی میں ٹی ایل پی کو اسٹیبلشمنٹ کی پیدا کردہ جماعت سمجھا جائے، جس کے سیاسی خرمن میں عوام کو بیچنے کے لیے 295 سی کے علاوہ کوئی جنس موجود نہیں۔ جبکہ حقیقت اس عامیانہ تفہیم سے کہیں بڑھ کر مذہبی و سیاسی جماعتوں کے متنوع سیاسی پس منظر، اسلامی عقائد کی مختلف الخیال مسلکی تشریحات، منبر و مدرسہ کا سیاسی استعمال، چندہ مہمات اور ان سے حاصل ہونے والی رقوم کے ذریعے رکے حال عوامی طبقات تک رسائی و پذیرائی کے ذرائع کی مکمل تفہیم کی متقاضی ہے۔
تھامس کے گلگر (2011) کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کی مسلم آبادی کا بیشتر حصہ، جو تقریباً 55 فیصد بنتا ہے، مولانا فضل رسول بدایونی، مولانا فضل حق خیر آبادی اور امام احمد رضا خان بریلوی کی صوفیانہ و بریلوی تشریحات و توجہات کا پیرو ہے۔ جبکہ ماندہ تقریباً 17 فیصد دیوبند، تقریباً 15 فیصد اثنا عشری شیعہ اور تقریباً آٹھ فیصد اہل حدیث یا سلفی العقیدہ مسلمان ہیں۔ باقی ماندہ چار فیصد مسلمان بظاہر فرقہ پرستی سے بالاتر مولانا مودودی کی تعلیمات، ذکری، بوہرہ داؤدی اور اسماعیلی العقیدہ ہیں۔
واضح رہے کہ ان تحریکوں کے پیروکاروں میں ایک طبقہ ایسے افراد پر بھی مشتمل ہے جو عقیدہ و منہج میں ان تحریکوں سے منضبط ہوتا ہے مگر عملی اعتبار سے سیاسی نفور کا قائل ہوتا ہے۔
ٹی ایل پی کے گستاخیٔ رسول و صحابہ سے متعلق قوانین کے حوالے سے ماورائے عدالت انصاف و قتل گری کی عوام میں تزویراتی ترویج سے کوئی ذی شعور شخص انکار نہیں کر سکتا۔ مگر ٹی ایل پی کی سیاست کا محور فقط یہ موضوعات نہیں، بلکہ اس کی اصل سیاسی متاع اس کی باقی ماندہ مسالک سے مختلف صوفی و بریلوی عقائد پر مبنی مسلکی تشریحات ہیں۔
مثلاً مسلک دیوبند کی ترجمان مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام پیغمبر اسلام کو حاضر و ناظر اور ہر لمحہ موجود (دنیاوی تجسیم) تسلیم نہیں کرتی۔ اس لیے یہ مذہبی جماعتیں رسول کریم کی ذات کو اپنے ووٹر کے درمیان موجود محسوس کرانے سے قاصر ہیں۔
اس کے برخلاف بریلوی و صوفی عقائد کی تشریحات پیغمبر اسلام کو نہ صرف حاضر و ناظر مانتی ہیں بلکہ انہیں اپنے درمیان ایک ایسی شخصیت کے طور پر پیش کرتی ہیں جسے ایک عام آدمی اپنی روزمرہ زندگی کے مسائل کے حل کے لیے مدد کو پکارتا ہے اور انہیں اپنے بیچ محسوس بھی کرتا ہے۔
ٹی ایل پی کا کمال یہ ہے کہ اس نے ان مسلکی تشریحات کو انتہائی مہارت سے اپنے ووٹر کے شعور کا حصہ بنا دیا ہے اور اپنے جلوسوں میں بارہا دہرا کر انہیں اپنے سیاسی اثاثوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ مسلکی تشریحات کے سیاسی استعمال کو سمجھنے کے لیے ٹی ایل پی کی مجلسِ شوریٰ کے رکن مولانا فاروق الحسن کی 2018 کی انتخابی مہم میں بارہا دہرائی جانے والی تقریر نہایت برمحل ہے: ’او لوگو، جب تم پولنگ سٹیشن میں داخل ہو رہے ہو گے تو اس بند کیبن میں ن، بلا اور تیر والا تمہیں نہیں دیکھ سکے گا مگر یاد رکھنا، تمہیں حسنین کے نانا دیکھ رہے ہوں گے۔‘
ٹی ایل پی کی مسلکی تشریحات کے سیاسی استعمال کے ذریعے عوامی پذیرائی کے علاوہ، فلاحی کاموں کے ذریعے عوام تک رسائی، مثلاً سستے رمضان بازار، رکشہ و ریڑھی سکیم، اور مختلف شہروں میں مفت طبی کیمپس، کی ایک نمایاں مثال بلوچستان میں 2022 کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران بروقت امداد میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں ٹی ایل پی نے نہ صرف خیمہ بستیاں قائم کیں بلکہ وہاں موجود بچوں کی مذہبی و اخلاقی تعلیم کے لیے الگ مدارس قائم کیے تاکہ ان مقامات سے اپنے مسلکی و سیاسی مقاصد کا حصول ممکن بنا سکے۔
ان مسلکی تشریحات اور فلاحی سرگرمیوں کے سیاسی اثرات ہم 2018 کے قومی انتخابات میں تحریکِ لبیک پاکستان کی 2.2 کروڑ ووٹوں سے پانچویں بڑی جماعت اور 2024 کے قومی انتخابات میں 2.9 کروڑ ووٹوں (جن میں 2.42 کروڑ ووٹ صرف پنجاب سے تھے، جو 2018 کے مقابلے میں 0.84 کروڑ زیادہ ہیں) کے ساتھ چوتھی بڑی جماعت کے طور پر سامنے آنے سے بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔
یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ٹی ایل پی عمومی تاثر کے برخلاف، کہ یہ پنجاب، کراچی اور حیدرآباد کی مذہبی جماعت ہے، کے پی کے بالعموم اور پشاور میں بالخصوص تنظیم سازی پر توجہ دے رہی ہے اور وہاں عشروں سے غیر فعال صوفی بریلوی درس گاہوں، مساجد اور مدارس سے سیاسی روابط قائم کر رہی ہے۔ اس کا نتیجہ کے پی کے کے 2021–22 کے بلدیاتی انتخابات میں ورکرز اور خواتین کی نشستوں پر دوسری مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں برتری کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔
حالیہ سانحۂ مریدکے کے بعد پنجاب، سندھ اور وفاقی حکومت نے ممکنہ سیاسی خطرات اور عوامی ردِعمل سے نمٹنے کے لیے ٹی ایل پی کے تمام جلوسوں اور حتیٰ کہ ان کے بانی امیر خادم حسین رضوی کے نومبر میں لاہور میں ہونے والے سالانہ عرس پر امسال پابندی لگا دی ہے۔ ان پابندیوں کے جواب میں ٹی ایل پی ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ سامنے آ رہی ہے۔ ٹی ایل پی پنجاب اور کے پی کے کی حکومتوں کے باہمی سیاسی مخاصمت سے بخوبی آگاہ ہے اور اس کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔
ٹی ایل پی کے پی کے کے امیر ڈاکٹر شفیق امینی چارسدہ میں اپنی درگاہ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں، جہاں حال ہی میں انہوں نے خادم حسین رضوی کے سالانہ عرس کے سلسلے میں ایک محفل منعقد کی ہے۔ نیز وہ یوٹیوب، فیس بک اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے پنجاب، سندھ، بلوچستان اور اسلام آباد کے پیروکاروں کو سانحۂ مریدکے کے بعد سوگ سے نکلنے، مایوس نہ ہونے اور سیاسی طور پر متحرک رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔
پس اس امر کو تسلیم کرنے میں کوئی مانع نہیں کہ جب تک ہمارے معاشرے میں ایسی مسلکی تشریحات موجود رہیں جنہیں آسانی سے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ ٹی ایل پی اور دیگر مذہبی جماعتوں کے پیروکار حکومتِ وقت کی دار و رسن کی مشکلات کو ثواب کے حصول کا ذریعہ سمجھ کر برداشت کرتے رہیں گے۔ نیز ان تشریحات کی سیاسی توضیحات، منبر و محراب اور مدرسہ کے پرتشدد سیاسی استعمال اور فلاحی سرگرمیوں کے ذریعے عوامی رسائی کی بدولت آنے والے چند سالوں میں ٹی ایل پی، چاہے اپنی نظر بند قیادت کے ساتھ یا اس کے بغیر، اسی نام یا کسی نئے نام و سیاسی نشان کے ساتھ پاکستانی سیاست کے افق پر دوبارہ ظہور پذیر ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر ارسلان احمد قائداعظم یونیورسٹی کے سکول آف پالیٹکس اینڈ آئی آر (ایس پی آئی آر) سے منسلک ہیں۔ ان کا تحقیقی کام ڈیجیٹل اسلام، مذہبی و مسلکی سیاست، شدت پسندی اور طالبانائزیشن جیسے موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔