پاکستان میں سخت موقف رکھنے والی کالعدم مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار ان دنوں پارٹی سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں، جسے پارٹی ترجمان نے ’دباؤ کا نتیجہ‘ قرار دیا ہے۔
ٹی ایل پی نے 10 اکتوبر کو لاہور سے اقصیٰ مارچ کا آغاز کیا تھا، جس کا مقصد غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج تھا۔ بعدازاں انہوں نے اسلام آباد تک مارچ شروع کیا اور مریدکے شہر کے باہر جی ٹی روڈ کو بلاک کر دیا۔
13 اکتوبر کو قانون نافذ کرنے والے ادارے مارچ کے شرکا کو منتشر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کارروائی میں پولیس حکام کے مطابق ایک ایس ایچ او جان سے گئے اور 48 اہلکار زخمی ہوئے۔ ان واقعات کا مقدمہ ٹی ایل پی رہنماؤں کے خلاف درج کیا گیا۔
ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی، ان کے چھوٹے بھائی انس رضوی اور کئی دوسرے رہنما تب سے لاپتہ ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق اب تک ٹی ایل پی کے پانچ ہزار سے زیادہ کارکنوں کو صوبے میں درج 70 سے زائد کیسوں میں گرفتار کیا جا چکا ہے، جبکہ بتایا جا رہا ہے کہ مزید گرفتاریوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔
13 اکتوبر کی کارروائی کے بعد سے ٹی ایل پی کے ٹکٹ پر 2018 اور 2024 کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے جماعت سے لاتعلقی کے اعلانات سامنے آنا شروع ہوئے ہیں۔
ان اعلانات کا انداز اور طریقہ کار بالکل ایسا ہی تھا جیسے پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں اور رہنماؤں نے نو مئی کے واقعات کے بعد جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے کے لیے اپنائے تھے۔
ملتان میں جمعرات کو محمد حسین بابر کی قیادت میں متعدد حلقوں سے ٹی ایل پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے امیدواروں نے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا۔
محمد حسین بابر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ’اسرائیل اور فلسطینی تنظیم حماس کے درمیان معاہدہ طے پانے کے بعد احتجاج کا کوئی جواز نہیں تھا۔ پر تشدد مارچ کرنے کے باعث پارٹی سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں۔‘
اس سے قبل 19 اکتوبر کو پی پی 148 لاہور سے حالیہ عام انتخابات میں تحریک لبیک کے امیدوار چوہدری یونس جٹ ویڈیو پیغام کے ذریعے ٹی ایل پی چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
ٹی ایل پی کے ترجمان نے تنظیم کے انتخابی امیدواروں کی لاتعلقی کے اعلانات کو ’دباؤ کا نتیجہ‘ قرار دیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’پولیس کے ذریعے گھروں پر چھاپے اور گرفتاریوں کا سہارا لے کر ٹی ایل پی کارکنوں کو خوفزدہ نہیں کیا جا سکتا۔ جتنے مرضی امیدواروں کو ہراساں کر لیں کارکنوں کے حوصلے بلند رہیں گے۔‘
ترجمان تحریک لبیک پاکستان کے مطابق بعض کارکنان کو حراست میں رکھ کر ان سے زبردستی پریس کانفرنسیں کروائی جا رہی ہیں تاکہ انہیں جماعت سے دور کرنے کا تاثر دیا جا سکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ عمل نہ صرف بنیادی انسانی حقوق بلکہ آزادیِ اظہارِ رائے کے بھی سراسر منافی ہے۔‘
تاہم حکومت ٹی ایل پی اور پی ٹی آئی کے خلاف کارروائیوں کو ان کی ’پرتشدد سیاست کا نتیجہ‘ قرار دیتی ہے۔
وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی جماعت کو سیاست کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔‘
انہوں نے حکومت کی نیت بری نہ ہونے کا ثبوت یہ کہتے ہوئے دیا کہ ’ٹی ایل پی کو کالعدم تو قرار دے دیا گیا لیکن سپریم کورٹ ریفرنس بھیج کر الیکشن کمیشن سے پارٹی کو تحلیل نہیں کروایا گیا ہے۔‘
بقول رانا ثنا: ’اسی طرح تحریک انصاف کے نو مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کے اشتعال انگیز مظاہروں میں ملوث رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف قانونی کارروائی ہو رہی ہے، لیکن قانون کے دائرے میں رہ کر سیاست کرنے سے اس جماعت کو بھی کسی نے منع نہیں کیا۔‘
لاتعلقی کےاعلانات سے سیاسی جماعتوں پر اثرات
دوسری جانب تحریک انصاف کے ترجمان شوکت بسرا نے ان واقعات کو پاکستان کی ’سیاسی تاریخ کی حقیقتیں‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی رہنماؤں یا امیدواروں سے پارٹی چھڑوانے کے ’ہتھکنڈے‘ بہت پرانے ہیں۔
’پہلے جماعت اسلامی، پھر پیپلز پارٹی، اس کے بعد دیگر جماعتیں ایسے دور سے گزر چکی ہیں۔ اب پی ٹی آئی اور ٹی ایل پی کے خلاف وہی فارمولے آزمائے جا رہے ہیں۔‘
شوکت بسرا کا کہنا تھا کہ ’سیاسی جماعتیں نظریے کی بنیاد پر بنتی ہیں، جن میں لوگ اپنے خیالات کو مد نظر رکھ کر چلتے ہیں۔ جماعتوں کے کارکن یا امیدوار ملازم نہیں ہوتے جو تنخواہ بند کرنے یا نکالنے سے لاتعلق ہو جائیں گے۔ ایسے ظلم وجبر سے کسی جماعت کو نہ پہلے ختم کیا جا سکا اور نہ آئندہ راستہ روکا جاسکتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جس طرح تحریک انصاف کے کارکنوں کو خوفزدہ کر کے پولیس کے ذریعے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کیے گئے، پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، پی ٹی آئی کا نشان چھین لیا گیا، پھر بھی پارٹی نئے امیدواروں کے ساتھ 2024 کے الیکشن میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر بھرپور طریقے سے سامنے آئی۔
’اسی طرح ریاستی طاقت کے استعمال سے ٹی ایل پی کو بھی ختم کرنے کا فارمولہ لگایا جا رہا ہے، لیکن اس طرح یہ جماعت بھی مزید مضبوط ہو کر سامنے آئے گی۔‘
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ سیاست میں تشدد نہیں، بات چیت سے مسائل حل کرنے ہوتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ان کارروائیوں کے ذریعے کسی سیاسی جماعت کو سیاست سے کبھی روکا نہیں جا سکا۔ البتہ ہر سیاسی لیڈر نے مذاکرات کی میز پر ہی کارروائیوں سے بچنے اور پارٹی کو زندہ رکھنے کے راستے نکالے۔
’جو جماعت ریاست سے خود کو بالاتر سمجھتی ہے اس کے لیے اقتدار تو کیا سیاست کے میدان بھی دستیاب نہیں ہوئے۔ جنہوں نے سمجھداری سے مسائل حل کیے، وہ اب بھی سیاست میں نمایاں ہیں۔‘
بقول سلمان غنی: ’پی ٹی آئی اور ٹی ایل پی قیادت چونکہ ٹکراؤ کی سیاست پر یقین رکھتی ہے تو ان کے لیے ریاست بھی گنجائش نکالنے کو تیار نہیں۔‘