پاکستان میں کشمیری ہلاکتیں، کیا ذمہ دار ٹی ٹی پی ہے؟

پاکستان میں ان ہلاکتوں پر کئی خدشات نے جنم لیا ہے اور سوال کیا جا رہا ہے کہ ان واقعات کے پیچھے کون ہے؟

31 جنوری، 2023 کو کراچی میں پولیس اہلکار چوکس کھڑے ہیں (اے ایف پی)

سن نوے میں جب ہزاروں کشمیری نوجوانوں نے انڈین حکومت کے خلاف مسلح تحریک شروع کی تھی تب سے حقوق انسانی کے عالمی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق جموں و کشمیر میں ہلاکتوں، انسانی حقوق کی پامالیوں، حراست کے دوران ہلاکتوں یا لاپتہ ہونے کا ایک بظاہر نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں۔

ایک جانب تقریباً 10 ہزار مسلم خاندان لائن آف کنڑول کے پار ہجرت کرگئے تو دوسری جانب بندوق کے خوف سے ڈیڑھ لاکھ کشمیری پنڈت انڈیا کی دوسری ریاستوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔

آزادی کے متوالے بیشتر نوجوان اور مہاجر کشمیری سرحد پار کرنے کے بعد وادی واپس نہیں آسکے اور پنڈت اب بھی وطن واپسی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

سرحد پار جانے والے ایسے ہزاروں نوجوان تین دہائیوں سے اپنے عزیزوں سے جدا ہیں، وہ اپنی شناخت کھو چکے ہیں اور بعض کے لیے پاکستان یا پاکستان سے باہر در در کی ٹھوکریں کھانا نصیب بن گیا۔

اب یہ لوگ کچھ عرصے سے نشانہ بنا کر یا ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بھی بننے لگے ہیں۔ ادھر وادی میں بھی چند پنڈت ٹارگٹ کلنگ کی زد میں ہیں۔

آپ نے سنا ہوگا کہ پاکستان میں چند روز پہلے دو ایسے کشمیریوں کی پراسرار ہلاکتیں ہوئی ہیں کہ جس سے سرحد کے آر پار کشمیریوں کے خوف میں اضافہ ہوا ہے اور وہ خود کو زیادہ غیرمحفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔

کراچی میں جماعت اسلامی کے کارکن 55 برس کے خالد رضا کو بعض نامعلوم افراد نے گھر کے باہر فائرنگ کر کے ہلاک کردیا ہے جو کافی عرصہ پہلے مسلح تحریک چھوڑ کر ایک سکول سے وابستہ ہوگئے تھے۔

خالد رضا کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ماضی میں مسلح تنظیم ’البدر مجاہدین‘ کے سابق کمانڈر رہ چکے ہیں جو تنظیم کشمیر میں سن نوئے کی مسلح تحریک میں متحرک تھی۔

’البدر مجاہدین' اور افغان مجاہدین کے بیچ ماضی میں خاصا تعلق رہا ہے مگر کشمیر کی تحریک آزادی میں افغان مجاہدین کا کوئی کردار سامنے نہیں آیا۔

خالد رضا کے قتل سے چند روز پہلے پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک اور حملے میں وادی میں متحرک تنظیم ’حزب المجاہدین‘ کے ایک سرکردہ کمانڈر بشیر احمد پیر عرف امتیاز عالم پراسرار حالات میں ہلاک کر دیے گئے تھے جن کی تجہیز و تکفین میں کشمیر کی عسکری اور سیاسی قیادت نے حصہ لیا۔

بیشتر سوگواروں نے اس کی ذمہ داری انڈیا پر ڈالی اور جموں و کشمیر کو انڈیا سے آزاد کرانے کا عزم دہرایا۔

ان ہلاکتوں پر کئی خدشات نے جنم لیا ہے اور پوچھا جا رہا ہے کہ کشمیریوں کی ان ہلاکتوں کے پیچھے کون ہے؟

ایک دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ جو پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر میں عسکری یا آزادی پسند آباد ہیں انہیں موجودہ حالات کے پیش نظر تحریک سے کنارہ کشی اختیار کر کے حالات سے سمجھوتہ کرنے کی صلاح دی گئی ہے جس کے لیے وہ ذہنی طور پر تیار نہیں ہو پا رہے اور اس کی مزاحمت کرنے پر بضد ہیں۔

مگر اس دلیل کو حریت کے رہنما عبدل حمید لون رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ان ہلاکتوں کی ذمہ دار انڈیا کی سراغ رساں ایجنسی را ہے جس نے تحریک طالبان کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں عسکری قوت کو ختم کرنے کا ٹاسک دیا ہے۔‘

لون کہتے ہیں کہ ’وادی میں عسکری قوت کو ختم کرنے کے بعد انڈیا نے اب سرحد پار یہ کارروائی شروع کر دی ہے۔‘ انڈیا یا پاکستان سے اس کی تصدیق کسی نے نہیں کی ہے۔

ایک دلیل یہ بھی ہے کہ بعض اشخاص دونوں جانب کے سرحدی محافظوں کی آشیرباد سے آر پار منشیات کے کاروبار میں ملوث ہیں جن کے خلاف بعض آزادی پسند رہنماؤں نے سخت کارروائی کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور یہ ہلاکتیں  شاید طاقت ور حلقے کی جانب سے خوف پیدا کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں تاکہ منشیات کی تجارت میں رکاوٹ نہ ہوسکے۔

انڈیا نے کئی بار الزام عائد کیا ہے کہ ریاست پنجاب کی سرحد اور لائن آف کنٹرول سے منشیات کی سمگلنگ ہوتی ہے جس کو پاکستان نے ہر بار رد کیا ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پنجاب اور جموں و کشمیر میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد منشیات کی عادی بن چکی ہے۔

مظفر آباد میں حریت سے وابستہ ایک سینیئر رہنما نے مجھے بتایا کہ ان ہلاکتوں سے قبل واٹس ایپ پر ایک ویڈیو بھیجی گئی تھی جس میں بعض عسکریت پسندوں کو چوکنا کر دیا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو کسی اور کی ایما پر عسکریت پسندوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک ترجمان میں تاہم اپنے بیان میں ایسی کسی بھی کارروائی سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’نہ ہی ہماری کوئی ایسی پالیسی ہے اور نہ ہی ہم ان کو خدانخواستہ کوئی غیر مسلم یا حربی سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی کریں۔‘

گو کہ تحریک طالبان کے حملوں میں کافی شدت آئی ہے لیکن پاکستان میں سرکاری سطح پر البتہ اس کی کسی نے تصدیق نہیں کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بعض کشمیری قوم پرست اس دلیل کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان ہلاکتوں کے پیچھے ان عناصر کا ہاتھ ہے جنہوں نے بہت پہلے کشمیر پر سودا بازی کر دی ہے اور جس میں اس عسکری قیادت کا صفایا کرنا شامل ہے جو کشمیر کی سودا بازی کے مخالف ہیں۔

میرپور کے سماجی کارکن راجہ عنایت کہتے ہیں کہ ’وادی میں عسکری نوجوانوں کی ہلاکتوں کے بعد اب یہ کام پاکستان میں شروع ہوا ہے۔

’پاکستان کو ان ہلاکتوں کے بارے میں عوام کو بتانا ہوگا ورنہ یہ سمجھا رہا ہے کہ پاکستان ان کارروائیوں کی حمایت کر رہا ہے۔‘

حریت قیادت کو دونوں طرف کے کشمیر کے سیاسی منظرنامے سے ہٹایا گیا ہے اور ایک ایسے کارکن کو حریت کا سربراہ قرار دیا گیا ہے جو تقریباً ایک دہائی سے اسیر زنداں ہیں۔ وہ کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

وادی میں یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ محبوس رہنما مسرت عالم کو حریت کا سربراہ بنانے کے وقت ہی عندیہ ملا تھا کہ کشمیر مسئلے کو دونوں جانب پانچ اگست، 2019 کے فیصلے کے کفن میں ہمیشہ کے لیے سلا دیا گیا ہے۔

کشمیر قضیہ جتنا پیچیدہ ہے اتنا ہی اس معاملے پر ابہام بھی پائے جاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی منشا کے مطابق اپنی دلیل دیتا آیا ہے۔ حقیقت کیا ہے وہ انڈیا اور پاکستان دونوں جانتے ہیں۔

ظاہر ہے حالیہ پراسرار ہلاکتیں پاکستان میں ہوئی ہیں تو پاکستان کے اداروں کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ نئے ابہام یا خدشات کو دور کرنے کے لیے اس معاملے کی حقیقت سے عوام کو روشناس کرایں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ