کراچی میں قتل کیے جانے والے خالد رضا کون تھے؟

خالد رضا کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں شامل تنظیم البدر سے 1990 میں وابستہ رہ چکے ہیں  تاہم اب وہ درس و تدریس سے منسلک تھے۔

(تصویر:بھا؟ئی خالد رضا)

فیڈریشن آف پرائیویٹ سکول ایسوسی ایشن کے عہدے دار خالد رضا کے کراچی میں قتل پر پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ہدف بنا کر کیا گیا یعنی ٹارگٹڈ قتل تھا۔

لیکن خالد رضا کہ وجہ شہرت محض درس و تدریس نہیں تھی بلکہ ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں شامل تنظیم البدر سے 1990 کی دھائی میں وابستہ رہ چکے ہیں۔   

 تاہم بعد ازاں انہوں نے عملی طور پر عسکریت پسندی سے دوری اختیار کر لی تھی اور درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے تھے۔

مقتول کے البدر سے تعلق کے بارے میں جب ان کے بڑے بھائی تنویر رضا سے پوچھا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو منگل کو بتایا کہ ’یہ تو بہت پرانی بات ہے جب وہ سکول اور کالج میں زیر تعلیم تھے۔‘

انہوں نے خالد رضا کے البدر میں کردار سے متعلق کچھ بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کا کردار کچھ زیادہ نہیں تھا اور گذشتہ لگ بھگ 20 سال سے ان کی تمام تر توجہ درس و تدریس اور ایک نجی سکول میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے پر مرکوز رہی۔‘

دوسری جانب امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے پیر کو میڈیا سے گفتگو میں بھی کہا تھا کہ خالد رضا تعلیم و تدریس کے عمل کے ساتھ ساتھ کشمیر کی جدوجہد آزادی کے لیے کوشاں تھے۔

انہوں نے اس قتل کا الزام بھارتی خفیہ ایجنسی را پر عائد کیا تھا۔ ’اس واقعے میں را کا شامل ہونا خارج از امکان نہیں۔ اس نیٹ ورک کو پکڑنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پہلے یہ خبر گذشتہ اتوار کو سامنے آئی کہ ڈکیتی کی واردات پر مزاحمت کرنے پر خالد رضا کو کراچی میں قتل کیا گیا لیکن اب ایس ایس پی ایسٹ زبیر نذیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خالد رضا کو ہدف بنا کر مارا گیا ہے۔

زبیر نذیر نے کہا کہ حملہ آوروں نے خالد رضا کے معمولات کے بارے میں پہلے سے معلوم کر رکھا تھا ’یہ ٹارگٹڈ کلنگ ہے جب وہ اپنے گھر سے باہر آ رہے تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ قتل میں ملوث ملزمان بظاہر انتہائی تربیت یافتہ تھے اور انہوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے مقتول کو ایک ہی گولی ان کے سر پر ماری۔

ادھر ایک عسکری تنظیم سندھو دیش ریولوشنری آرمی (ایس آر اے) نے ٹوئٹر پر اس قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تاہم ایس ایس پی جمشید زبیر نے کہا وہ فی الحال اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے اور کیس کی تفتیش جاری ہے۔

کشمیر میں عسکری تحریک سے منسلک یہ دوسرے سابق کمانڈر ہیں جنہیں رواں ماہ ہدف بنا کر مارا گیا ہے۔ اس سے قبل 20 فروری کو راولپنڈی میں کشمیری عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے سابق کمانڈر بشیر احمد پیر عرف امتیاز عالم کو مضافاتی علاقے برما ٹاؤن میں ’نامعلوم موٹر سائیکل سواروں‘ نے انتہائی قریب سے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔

قتل کے اس واقعے کی ایف آئی آر میں بشیر احمد کے قتل کا ممکنہ مقصد ’مذہبی فرقہ واریت اور دہشت گردی پھیلانا‘ قرار دیا گیا تھا۔

پاکستان میں ہدف بنا کر قتل کے واقعات کوئی نہیں بات نہیں البتہ ایسی شخصیات کو نشانہ بنانا جن کا بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی آزادی کی تحریک سے ماضی میں تعلق رہا ہو ان واقعات کو غیر معمولی بنا دیتا ہے۔   

پولیس کا تاہم کہنا ہے کہ وہ تمام پہلوؤں سے ان کی تفتیش کر رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان