انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی یوں تو امریکہ کے کئی بار دورے کر چکے ہیں اور ان کی صدر جو بائیڈن سے کئی بار ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں لیکن ان کے موجودہ دورے کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔
یہ کالم تجزیہ نگار کی آواز میں سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
ایک تو پہلی بار امریکہ نے ان کے اس دورے کو سفارتی طور پر سرکاری دورہ قرار دیا ہے جس میں مودی کا کانگریس کے دونوں ایوانوں سے خطاب، صدر کے ساتھ سرکاری عشائیہ اور معروف کمپنیوں کے سربراہان سے اہم ملاقات شامل تھی۔
دوسرا اس دورے کے پس پشت چین کا عالمی سطح پر بڑھتا اثر رسوخ ہے جس کو زائل کرنے میں امریکہ انڈیا کی شراکت داری کو لازمی تصور کر رہا ہے۔
پھر افغانستان میں دوسال قبل امریکی افواج کو طالبان کے ہاتھوں جس ہزیمت سے گزرنا پڑا ہے اس سے بائیڈن انتظامیہ ابھی تک سنبھل نہیں پائی اور نہ پاکستان چین دوستی کو لاکھ کوشش کے باوجود کم کر سکی ہے۔
چین اور روس کی بڑھتی قربت کے پیش نظر بھی امریکہ کے پاس انڈیا کے قریب آنے کے بغیر اور کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔
انڈیا کو بخوبی اندازہ ہے کہ ایشیا کے اس خطے کی سٹریٹیجک اہمیت کے مد نظر امریکہ یا یورپی ممالک اس کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ بدلے میں انڈیا کو لداخ اور اروناچل پردیش میں چین کی پیش قدمی کوروکنے میں امریکہ کی حمایت حاصل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
انڈیا امریکہ تعلقات کے ماہرین کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے رشتے سابق صدر بل کلنٹن کے زمانے سے کافی گہرے ہو گئے تھے جس کی بدولت دونوں ملکوں کے بیچ جوہری معاہدہ طے پایا تھا۔
جو بائیڈین نے اقتدار سنبھالتے ہی مودی کے ساتھ ملاقات کی اور مراسم بڑھائے۔ بعض ماہرین کے مطابق دونوں کے بیچ تعلقات میں پہلے اتنی گرم جوشی نہیں دیکھی گئی لیکن یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں بائیڈن کو انڈیا کو قریب لانے میں پہل کرنی پڑی۔
دونوں کے بیچ اتحاد اپنی جگہ، مگر انڈین میڈیا نے مودی کے اس دورے کو جتنی اہمیت دی ہے اور جس طرح انہیں ایک عالمی رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے بقول مبصرین اس کا براہ راست تعلق اگلے سال انڈیا میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے ہے۔
حیدرآباد میں پولیٹیکل سائنس کے استاد رویندر راٹھے کہتے ہیں کہ ’اندرونی سطح پر مودی کی امیج کو کرناٹک کے ریاستی انتخابات میں شکست، بی بی سی کی 2002 کے فسادات پر بننے والی ڈاکومنٹری، کسانوں کے ملک گیر احتجاج اور اب منی پور کی سنگین صورت حال سے کافی دھچکہ لگا ہے، پھر جمہوریت اور آئین کو جس طرح سے پامال کیا جا رہا ہے امریکی دورے کی کوریج سے اس پر پردہ ڈالنے کا کام کیا جا رہا ہے۔‘
ایک سروے کے مطابق بی جے پی کے تقریبا 40 فیصد ووٹر سمجھتے ہیں کہ مودی جیسا لیڈر ہندوؤں کو پہلی بار نصیب ہوا ہے جنہوں نے قوم، قومیت اور عالمی سطح پر انڈیا کو ایک بڑی طاقت کا احساس دلاکر ہندوؤں کو بیدار کیا ہے۔
دوسری جانب کانگریس سمیت دوسری اپوزیشن جماعتیں مودی کو انڈیا کے سیکولرازم، جمہوریت اور آئین کے لیے شدید خطرہ تصور کر رہی ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ اور نیو یارک ٹائمز سمیت امریکی میڈیا اور عوامی نمائندوں نے سوالات اٹھائے ہیں کہ انڈیا میں مودی کے دور میں عیسائیوں سمیت اقلیتوں کے لیے انسانی حقوق کی پامالیوں کے جو نت نئے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں اس پر بائیڈن انتظامیہ کو بات کرنی چاہیے خاموشی نہیں۔ امریکی کانگریس کے 70 سے زائد نمائندوں نے بائیڈن پر دباؤ برقرار رکھا کہ وہ اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں پر مودی کی سرزنش کریں مگر اس کا کم امکان ہے کہ وہ کھلے طور پر اس کا اظہار کر سکیں گے۔
چین جو معاشی طور پر امریکہ سے سبقت حاصل کر رہا ہے، مودی کو اس کے خلاف اکسانے اور روس کے ساتھ دفاعی ضروریات کا متبادل تلاش کرنے پر بائیڈن انتظامیہ کی ترجیحات رہی ہے۔
روس یوکرین جنگ کے دوران گو کہ انڈیا پر روسی جار حیت کی مذمت کرنے پر دباؤ ڈالا گیا لیکن اس نے نہ صرف روس سے مزید رشتے استوار کیے بلکہ سستے داموں تیل خرید کر بعض یورپی ملکوں کو یہی ایندھن مہنگے داموں فروخت بھی کر دیا۔
اگر امریکی اپنے مفادات کی خاطر مودی کو سرکاری اعزاز سے نواز رہے ہیں حالانکہ ماضی میں امریکہ آنے پر ان پر پابندی عائد تھی۔ اسی طرز پر مودی بھی اپنے مفادات کی خاطر جنرل موٹرز، ٹیسلا اور ٹوئٹر اوردوسری کمپنیوں کے مالکان سے ملاقات کے دوران مینو فیکچرنگ انڈسٹری کو انڈیا منتقل کرنے پر آمادہ کرنے آئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا امریکہ نینو ٹیکنالوجی، طبی سائنس میں تحقیق، سائبر ٹیکنالوجی، ڈرونز اور جیٹ انجن پر انڈیا کے ساتھ شراکت داری پر راضی ہو سکتا ہے؟ انڈیا میں سیاسی اور سفارتی حلقے بڑی بےتابی سے اس کا انتظار کر رہے ہیں۔
دیکھنا ہو گا کہ امریکہ کی ریڈ کارپٹ بچھانے کے پیچھے واقعی سنجیدہ سفارتی تعلقات بڑھانا ہے یا صرف روس اور چین کے خلاف متحدہ محاذ قائم کرنا مقصود ہے۔
مودی کے اس دورے سے قبل امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کے بیجنگ کے حالیہ دورے سے شکوک پیدا ہوئے ہیں جب انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے چین کی تائیوان پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے سب کو حیران کر دیا۔ خیال ہے کہ بلنکن کے بیان کا مقصد مودی کا دراصل باور کرانا تھا کہ امریکہ چین کے ساتھ بھی دوستی کر سکتا ہے اگر وہ امریکی امیدوں پر پورا نہیں اترتے۔
رویندر راٹھے کہتے ہیں کہ ’ایک جانب اتر کھنڈ سے لے کر جنوبی سمندروں میں امریکی افواج انڈیا کے ساتھ فوجی مشقیں کرتی آ رہی ہے دوسری جانب چین جا کر اس کی ون چائنا پالیسی کی حمایت کرنا، یا تو امریکی خارجہ پالیسی بائیڈن کی طرح بڑھاپے کا شکار ہے یا پھر چین کے بڑھتے اثر رسوخ سے امریکہ بد حواسی سے گزر رہا ہے۔ مودی کے دورے سے تو اندرون انڈیا ووٹر دل بہلا سکتے ہیں مگر ایسا نہ ہو کہ پس پردہ اس کو افغانستان جیسا اڈہ بنانے کا منصوبہ ہو۔‘
امریکہ میں جہاں ایک طرف بی جے پی کے ہزاروں لوگوں نے مودی کے ساتھ یوگا اور دوسری محفلوں کا انعقاد کیا، وہیں بی جے پی مخالف انڈین، خالصتان کے حامی سکھ اور تحریک آزادیِ کشمیر کے ہزاروں افراد نے احتجاجی مظاہروں کا اہتمام بھی کیا تھا جس کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر نظر آئے مگر انڈین میڈیا پر اس کا شائبہ بھی نظر نہیں آیا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔