کیا مودی کی الٹی گنتی اور کانگریس کے اچھے دن شروع؟ 

بٹوارے کے بعد انڈیا کی 75 سالہ تاریخ میں تقریباً 55 برس تک حکومت کرنے والی کانگریس، جو گذشتہ دس برس کے دوران کہیں نہیں تھیں، ایک بار پھر میدان میں ہے۔

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی چھ مئی کو بینگلور میں منعقدہ ایک ریلی میں اپنے سپورٹرز کے درمیان موجود ہیں (اے ایف پی)

2014 کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ تاثر پختہ ہوتا گیا کہ وزیراعظم مودی ایک دیوتا ہیں جنہیں چیلنج کرنا کانگریس کے بس کی بات نہیں۔ 

کانگریس کی سب سے بڑی مشکل ہندو انتہا پسندی سے لتھڑی مودی کی پاپلولسٹ طرز سیاست کا ایسا توڑ ڈھونڈنا تھا جسے عوام میں نعرے کی صورت مقبول بھی بنایا جا سکے۔ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کا عوامی ردعمل اور کرناٹک کے ریاستی انتخابات میں کانگریس کی غیر معمولی کامیابی کو مودی ازم کے خلاف سیکیولر انڈیا کی سب سے بڑی جیت تصور کیا جا رہا ہے۔ 

مگر کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی کی ناکامی مودی کی مذہبی انتہا پسندی کی شکست ہے؟ اور کیا کانگریس کی حالیہ فتح 2024 کے عام انتخابات میں کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی؟ 

کانگریس کی نئی اننگز: بھارت جوڑو یاترا سے کرناٹک انتخابات تک 

گذشتہ برس ستمبر میں کانگریس رہنما راہل گاندھی نے پیدل مارچ شروع کیا جو 136 روز تک جاری رہنے کے بعد 30 جنوری کو اختتام پذیر ہوا۔ جیسا کہ اس کے نام ’بھارت جوڑو یاترا‘ سے ظاہر ہے کہ اس کا مقصد لوگوں کے درمیان دوریاں ختم کرنا اور انہیں آپس میں جوڑنا تھا۔ چار ہزار کلومیٹر کے سفر کے دوران راہل گاندھی 14 مختلف ریاستوں سے گزرے جن میں کرناٹک بھی شامل تھا۔ اس دوران وہ جگہ جگہ رک کر عوام کو یاد دلاتے رہے کہ وہ ملک میں ’نفرت کے خلاف محبت کی دکان کھولنا چاہتے ہیں۔‘

’بھارت جوڑو یاترا‘ سے لوگوں کو گانگریس سے اپنائیت کا احساس ہوا۔ انہیں لگا کہ راہل مثبت پیغام کے ساتھ خود چل کر ہمارے پاس آیا ہے۔ اس یاترا کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ راہل کرناٹک کے جن 20 حلقوں سے گزرے ان میں سے 15 نشستیں کانگریس نے جیتیں۔ جبکہ 2018 میں ان میں کانگریس محض پانچ سیٹیں حاصل کر سکی تھی۔

کرناٹک الیکشن سیکیولر انڈیا اور کانگریس کی نئی اننگز کا ٹیسٹ کیس سمجھا جا رہا تھا۔ اگر کانگریس کرناٹک میں نہ جیت سکتی تو اس سے نہ صرف یہ تاثر مزید گہرا ہوتا کہ مودی ناقابلِ شکست ہیں بلکہ آئندہ ریاستی اور عام انتخابات میں اترتے ہوئے کانگریس خود بھی سیکیولر انڈیا کی شناخت کے حوالے سے اعتماد کی کمی کا شکار ہوتی۔ 

مودی کی ہندو انتہا پسندی کی شکست کا ایک مظہر بچوں کو ’اصلی‘ تاریخ پڑھانے والے اور حجاب پر پابندی لگوانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے وزیروں کو عوام کا مسترد کرنا ہے۔ ایک انتہائی دائیں بازو کے بی جے پی رہنما سی ٹی روی جنہیں صوفی مزارات سے بہت مسئلہ تھا ان کی بھی بازی پلٹ گئی۔ بحثیت مجموعی بھارتیہ جنتا پارٹی کے 11 وزرا غیر متوقع شکست سے دو چار ہوئے۔

 انتخابات میں کانگریس کی فتح میں ایک اہم کردار مسلم ووٹوں کا تھا۔ 60 ملین کی آبادی والی ریاست کرناٹک میں تقریباً 13 فیصد مسلمان بستے ہیں جن کے ووٹ خاصے اہم شمار ہوتے ہیں۔ Axis کے پوسٹ پول سروے کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کانگریس کو پڑنے والے مسلم ووٹوں کی تعداد نمایاں طور پر 10 فیصد تک بڑھی ہے۔ 

الیکشن مہم کے دوران بی جے پی ’لو جہاد‘ اور ’بجرنگ دل‘ جیسے موضوعات کے ذریعے ہندو ووٹرز کو متحرک کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ جبکہ اس سے پہلے بی جے پی نے مقامی سطح پر ایسے قوانین متعارف کروائے جس سے مسلمانوں سمیت کم آبادی والی برادریوں کو نقصان اور ہندوؤں کو فائدہ پہنچے۔

دوسری طرف کانگریس نے اعلان کیا تھا کہ وہ ’بجرنگ دل‘ پر پابندی لگا دے گی۔ یاد رہے بجرنگ دل ایک ہتھیار بند ہندو انتہا پرست تنظیم ہے۔ 

نتائج کے اعلان کے بعد کانگریس پارٹی کے ریاستی لیڈر سدارامیا نے جو کہا اس سے کافی حد تک اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ ’فرقہ وارانہ سیاست پر سیکیولرازم، نفرت پر ہم آہنگی‘ کو فتح ملی۔ 

مودی کے ملک گیر رہنما تصور کو دھچکہ 

اگرچہ مودی مرکز میں ایک مضبوط پردھان منتری ہیں لیکن ان کی جماعت ملک گیر وفاقی پارٹی کے بجائے محض شمالی ہندوستان تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ کرناٹک میں شکست کے ساتھ ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کا جنوبی ریاستوں سے مکمل صفایا ہو گیا۔

انڈین وفاق کی 30 اسمبلیاں ہیں (28 ریاستیں اور دو مرکزی زیر انتظام علاقے جن میں مقننہ ہے)۔ کرناٹک کی شکست کے بعد بی جے پی کا اقتدار محض 15 تک محدود ہو گیا جن میں سے ایک کروڑ آبادی سے زائد تعداد والی محض سات بڑی ریاستیں ہیں۔ 

اس اعتبار سے ہندوستان کی محض 45 فیصد آبادی پر بی جے پی کی یا دوسرے لفظوں میں مودی کی حکومت ہے۔ تاہم اس میں بھی مدھیہ پردیش اور مہاراشٹرا جیسی بڑی ریاستوں میں بی جے پی الیکشن نہیں جیت سکی تھی بلکہ سیاسی جوڑ توڑ اور مرکز کے اثرورسوخ کے ذریعے کنٹرول حاصل کیا تھا۔ ورنہ ان ریاستوں کے بغیر مودی 45 سے سیدھے 30 کے قریب آ گرتے ہیں جس سے آپ ان کے وفاقی اور ملک گیر رہنما کے تاثر کی حقیقت جان سکتے ہیں۔

کرناٹک میں مسلسل ریلیاں نکالنے اور تقریباً دو درجن دورے کرنے کے باوجود مودی انتخابی نتائج پر کوئی فرق نہ ڈال سکے۔ دیکھا جائے تو یہ غیر معمولی بات ہے ورنہ سیاسی پنڈتوں کے بقول ریاستی انتخابات میں کسی جگہ اتنے دورے شاید ہی کبھی کسی وزیر اعظم نے کیے ہوں۔ مودی کو خوش فہمی تھی کہ ہم 38 سالہ ریکارڈ توڑتے ہوئے کرناٹک میں دوبارہ حکومت قائم کریں گے۔ نتائج ان کی توقعات کے عین برعکس آئے۔ 

کیا کانگریس کو انڈیا کی معاشی ابتری کا فائدہ ہو رہا ہے؟ 

کرناٹک کے حالیہ ریاستی انتخابات میں مودی کی شکست کو معاشی و انتظامی مسائل سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق شہری ووٹر نوکریاں نہ ملنے سے ناراض تھے جبکہ کسان اصلاحات نہ ہونے اور اجناس کی قیمتیں نہ بڑھنے پر مایوس تھے۔ اس کے علاؤہ مہنگائی نے بھی عوام کی کمر توڑ رکھی ہے۔

کرناٹک جیسی ریاست جہاں لوگ جذباتی سے زیادہ عملی پہلوؤں کو دیکھتے ہیں وہاں مودی کی پارٹی حجاب، ٹیپو سلطان اور گوشت جیسے نان ایشوز کو اچھالتی رہی جس کا بی جے پی کو نقصان ہؤا۔ اس سے بی جے پی ایک سبق اخذ کر سکتی ہے کہ معاشی بدحالی کے عالم میں ہندو ووٹروں کو ہندوتوا متاثر نہیں کرے گا۔

دوسری طرف کانگریس کے پاس بہت واضح معاشی پالیسی اور سماجی امن کا نعرہ تھا۔ اس نے انتخاب سے پہلے ’پانچ وعدے' کیے کہ 200 یونٹ تک بجلی مفت دیں گے، ایک خاندان کی خاتون سربراہ کو ماہانہ 2 ہزار روپے ، خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے گھرانوں کے ہر فرد کو 10 کلو چاول مفت ملیں گے۔ جبکہ بے روزگار ڈگری ہولڈرز کے لیے 3 ہزار روپے ماہانہ کا بندوبست سرکار کرے گی اور دو سال والے ڈپلومہ ہولڈرز کے لیے 1500 روپے ماہانہ وظیفہ ہو گا۔ مزید یہ کہ ریاست بھر میں خواتین کے لیے مفت بس سروس کابینہ کی پہلی میٹنگ میں منظور کر لی جائے گی۔

نہ صرف کرناٹک بلکہ پورے انڈیا میں بی جے پی کرپشن الزامات کی زد میں ہے۔ انتخابی مہم کے دوران کانگریس مسلسل اسے ’40 فیصد کمیشن‘ پارٹی کہہ کر مخاطب کرتی رہی۔ مقامی ٹھیکیداروں نے الزامات لگائے تھے کہ بی جے پی رہنما ہر ٹھیکے میں اپنا 40 فیصد الگ رکھ لیتے ہیں۔ 

 کانگریس ان وعدوں کو پورا کرتے ہوئے کم از کم کرناٹک کی حد تک لوک سبھا کی نشستیں حاصل کر سکتی ہے اور آئندہ انتخابات میں یہ وعدے بمع ثبوت دیگر صوبوں میں بھی رکھ سکتی ہے۔ 

گانگریس کو کرناٹک فتح کا 2024 کے عام انتخابات میں کیا فائدہ ہو گا؟

مودی حکومت کے سخت ترین ناقدین میں سے ایک ممتا بنرجی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’میں کرناٹک کے لوگوں، تمام ووٹروں کو سلام پیش کرتی ہوں۔ میں جیتنے والوں کو بھی ان کی جیت پر سلام پیش کرتی ہوں۔

چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کے انتخابات آنے والے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ بی جے پی دونوں ریاستوں میں ہار جائے گی۔ اب یہ خاتمے کی شروعات ہیں۔‘ انہوں نے ساتھ میں یہ پیشنگوئی بھی کی کہ آئندہ انتخابات میں بی جے پی 100 سے بھی کم نشستیں حاصل کر پائے گی۔

اگرچہ ممتا بنرجی کا بی جے پی کے حوالے سے بیان ایک سیاسی ردعمل سے زیادہ کچھ نہیں لیکن بہت سے تجزیہ نگار کانگریس کی فتح کو تازہ ہوا کا جھونکا اور انڈیا کی سیکیولر ٹریک پر ’فیصلہ کن واپسی‘ قرار دے رہے ہیں۔

ان کے خیال میں کسی پاپلولسٹ رہنما کے بارے میں یہ تاثر انتہائی مہلک ہے کہ وہ ناقابلِ شکست ہے۔ کیوں کہ اس سے مخالف قوتیں پہلے ہی ہمت ہار بیٹھتی ہیں اور ایک فاشسٹ حکمران کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ 

مودی کو ریاستی انتخابات میں شکست پہلے بھی ہوتی رہی مگر حالیہ فتح ہی فیصلہ کن موڑ کیوں ہے؟ 

سیاسی پنڈتوں کے مطابق کسی دوسری جماعت کے نسبت دوبدو مقابلے میں کانگریس کا بی جے پی کو شکست سے دوچار کرنا زیادہ اہم ہے۔

مثال کے طور پر ویسٹ بنگال میں ممتا بنرجی نے بی جے پی کو مکمل آؤٹ کلاس کر رکھا ہے لیکن اس ایک ریاست کے علاؤہ ان کی جماعت تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ سو کانگریس ہی وہ واحد جماعت ہے جس کا دائرہ پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے اور مرکز میں جے پی کے مقابلے میں لوگوں کی حمایت لے سکتی ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار پہلے ہی آئندہ عام انتخابات سے قبل بی جے پی کے خلاف اتحاد کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے لیے اب ایسی جماعتوں کو کانگریس کی چھتری تلے لانا آسان ہو گا جو پہلے راہل کی جماعت کو چلا ہوا کارتوس کہہ کر مایوسی کا اظہار کرتی تھیں۔

کرناٹک میں لوک سبھا کے گذشتہ پانچ الیکشن میں سب سے زیادہ نشستیں بی جے پی نے جیتی ہیں۔ 2024 میں یہ صورت حال پورے جنوبی ہندوستان میں مختلف ہو گی۔ 

2018 کے بعد کرناٹک پہلی بڑی فتح ہے جس نے گانگریس کو ایک بار پھر بی جے پی کے مدمقابل میدان میں لا کھڑا کیا ہے۔ فی الحال اسے رواں برس چھتیس گڑھ، راجھستان، مدھیہ پردیش اور تلنگانہ کے انتخابات میں یہ ثابت کرنا ہے کہ سیکیولر انڈیا کا سفر زیادہ دور نہیں۔

مئی 2014 سے اب تک 29 ریاستی انتخابات ہارنے والی مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی آج بھی مرکز میں انتہائی مضبوط جماعت ہے۔ ریاستی اور عام انتخابات کی حرکیات بالکل مختلف ہیں۔

یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اگر مودی کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے تو فل سٹاپ کہاں لگے گا، 2024 یا 2029؟ البتہ بٹوارے کے بعد ملک کی 75 سالہ تاریخ میں تقریباً 55 برس تک حکومت کرنے والی کانگریس، جو گذشتہ دس برس کے دوران کہیں نہیں تھیں، ایک بار پھر میدان میں ہے۔

سیکیولر انڈیا کی بجھتی امیدیں روشن ہونے لگی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ