کشمیر اور مقابلہ حُسن

ڈل جھیل میں دنیا کی خوبصورت خواتین کو دیکھنے کے لیے گو کہ قومی اور عالمی میڈیا ابھر کر آیا تھا مگر عام لوگوں نے اتنی دلچسپی نہیں دکھائی۔

مس ورلڈ کرولینا بلواسکی اور مس انڈیا سنی شیٹی نے 28 اگست 2023 کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی ڈل جھیل کا دورہ کیا (تصویر: جموں اینڈ کشمیر ٹورازم ڈپارٹمنٹ/ اے ایف پی)

کشمیر اتنی خوبصورت جگہ ہوگی، یہ میرے وہم و گمان میں نہیں تھا، اس کی جھیلیں، پہاڑ، ثقافت اور نقش و کاریگری، لاجواب ہے، حسیناؤں کے عالمی مقابلے میں حصہ لینے والی تمام خوبصورت خواتین کو کشمیر آنے کا موقعہ مل رہا ہے تاکہ قدرت کی اس حسین وادی کو دنیا میں متعارف کرایا جا سکے۔‘

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

یہ خیالات ہیں پولینڈ سے تعلق رکھنے والی مس ورلڈ کرولینا بلواسکی کے جو مس انڈیا، مس برطانیہ، مس امریکہ، مس کیریبیئن اور دوسری درجنوں حسیناؤں کے ساتھ کشمیر کے ایک روزہ دورے پر تھیں، جہاں آج کل سیاحوں کی بڑی تعداد کے باعث تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے اور ہوٹلوں، گیسٹ ہاؤسز یا ہاؤس بوٹس میں بکنگ ملنا تقریباً ناممکن ہے۔

ڈل جھیل میں دنیا کی خوبصورت خواتین کو دیکھنے کے لیے گو کہ قومی اور عالمی میڈیا ابھر کر آیا تھا مگر عام لوگوں نے اتنی دلچسپی نہیں دکھائی۔

 پُرآشوب دور نے کشمیریوں کی تفریح حاصل کرنے کی حِس شاید مار دی ہے البتہ حالیہ مہینوں میں شاہ رخ خان، سلمان خان اور بالی وڈ کے دوسرے معروف ادکاروں کی موجودگی نے تفریح میں دلچسپی ضرور پیدا کی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال اب تک تقریباً 15 لاکھ سیاح کشمیر آئے ہیں، جن میں غیر ملکی سیاحوں کی تعداد 17 ہزار ہے۔

کشمیری باغات میں حسیناؤں کے ساتھ کئی فلمی پروڈکشن کمپنیاں بھی دیکھی جا رہی ہیں جہاں گذشتہ چھ ماہ میں ایک درجن سے زائد چھوٹی بڑی فلموں کی شوٹنگ ہو رہی ہے۔

انڈیا کے میدانی علاقوں میں گرمی کی تمازت سے بچنے کے لیے مئی سے ستمبر کے مہینے تک کشمیر سیاحوں کی آماجگاہ بنا رہتا ہے۔

یہ سلسلہ سنہ 90 میں مسلح تحریک اور پھر 2019 میں اندرونی خودمختاری کو ختم کرنے کے بعد کچھ عرصے کے لیے تھم گیا تھا۔

گذشتہ برس سے جہاں امرناتھ یاتریوں کی تعداد میں بھر پور اضافہ ہوا ہے وہیں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں میں اس وقت سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے جب وادی میں مئی میں جی20 کا اجلاس کروایا گیا تھا، جس میں امیر ملکوں کے مندوبین کے آنے سے غیر ملکی سیاحوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔

مرکزی سرکار نے یہاں کئی قومی سطح کے اجلاس کروائے، جن میں ملک کی نامور شخصیات نے حصہ لیا۔

یاد رہے کہ حسیناؤں کا عالمی مقابلہ تین دہائیوں کے بعد انڈیا میں ہو رہا ہے جس کو مرکزی حکومت نے اس سال کے آخر میں کشمیر میں منعقد کروانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ مقابلے میں 140 ممالک کی حسین خواتین حصہ لے رہی ہیں، اس سے پہلے مختلف ملکوں کی حسیناؤں کو ایک روز کے لیے کشمیر لایا گیا تھا، جو پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنیں۔

چند روز پہلے کانگریس کے رہنما راہل گاندھی اور سونیا گاندھی بھی واردِ کشمیر ہوئے۔ 

انہوں نے نگین جھیل میں شکارے یا بوٹ میں بیٹھ کر بیشتر مقامی لوگوں سے ملاقات کی، جس کی ویڈیو دیکھتے ہی بی جے پی نے کشمیر میں حالات نارمل کرنے کا سہرا اپنے سر لے لیا۔

اپوزیشن اور حکمران جماعت کے بیشتر سیاست دانوں اور وزرا نے کشمیر میں منعقدہ کئی تفریحی اور کھیلوں کے قومی مقابلوں میں شرکت کی۔

بی جے پی کی حکومت کا اکثر یہ موقف رہا ہے کہ پانچ اگست 2019 کے اندرونی خودمختاری کو ختم کرنے کے اس کے فیصلے کے بعد کشمیر میں حالات بہتر ہوگئے ہیں اور وہ خطے میں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے قومی اور عالمی شہرت یافتہ تاجروں، فنکاروں اور کھلاڑیوں کی خدمات حاصل کر رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مگر سیاحت سے وابستہ بیشتر انجمنیں کہتی ہیں کہ اگر کشمیر میں حالات بہتر ہوئے ہیں اور سیاحوں کی بڑی تعداد آ رہی ہے تو پھر بیشتر مغربی ممالک اور امریکہ نے اپنے شہریوں کے لیے یہ ہدایات کیوں جاری کر رکھی ہیں، جس میں انہیں کشمیر کے سفر میں احتیاط برتنے پر زور ڈالا گیا ہے۔

چند ہفتے پہلے میڈیا میں یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ امریکہ اور برطانیہ کشمیر کی سیر پر جانے والے اپنے شہریوں کے لیے یہ ایڈوائزری ہٹا رہے ہیں لیکن ابھی تک اس کی تصدیق کسی نے نہیں کی ہے۔

ظاہر ہے کہ ایڈوائزری ہٹنے کے بعد ہی غیر ملکوں سیاحوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے، جو خاص طور سے ٹریکنگ کے لیے کشمیر کے پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں اور اچھی آمدنی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔

مرکزی حکومت نے سال رواں میں جموں و کشمیر کی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے 786 کروڑ کا بجٹ مختص کیا ہے جس سے اس صنعت کو سنبھالا ملے گا جو گذشتہ برسوں کی شورش کے دوران کافی متاثر ہوئی ہے۔

ماضی میں کشمیر کی خوبصورت ترین ڈل جھیل عالمی شہرت یافتہ سیاست دانوں اور اداکاروں یا مصنفوں کا مسکن رہی ہے، جن میں روس کے کرسچوف، انڈیا کے پہلے وزیراعظم نہرو، دی ویلی آف کشمیر کے خالق والٹر لارینس اور معروف اداکار دلیپ کمار قابل ذکر ہیں۔ البتہ دنیا کی خوبصورت خواتین کا مقابلہ حسن پہلی بار کشمیر میں ہو رہا ہے۔

ڈل جھیل میں شکارے کے ملاح سے ایک رپورٹر نے پوچھا کہ ’ملکہ حسن کو دیکھ کر کیسا لگ رہا ہے؟‘

وہ پہلے شرمایا، پھر اپنی ٹوپی اتار کر پسینہ پوچھنے لگا، پھر ہمت کرکے دبی آواز میں بولا: ’میں اپنے ہاؤس بوٹ میں دنیا کی خوبصورت ترین عورت کے ساتھ رہتا ہوں، میری اہلیہ کا نام حسینہ ہے، اس کی آنکھوں میں ڈل کے چشموں سے پھوٹنے والی زندگی کی رعنایاں ہیں، پانیوں کی گہرائیوں میں اگنے والے پھولوں کی مہک ہے، جھیل کے کناروں پر نمودار ہونے والے کنول کی کھلتی مسکراہٹ ہے، قدرت کی دی ہوئی اس نعمت کو دیکھنے سے فرصت نہیں ملتی تو ملکہ حسن کہلانے والی ان عورتوں کو کب اور کیوں دیکھوں، جن کے اصلی خوبصورت چہرے میک اپ کے کئی پرتوں کے نیچے دب گئے ہیں‘۔

رپورٹر خاموشی سے سنتا رہا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ