جی 20 یا ڈزنی لینڈ؟

جی 20 کانفرنس کے دوران راستہ پوسٹروں اور قمقموں سے سجایا گیا تھا جو واقعی ڈزنی لینڈ کی تصویر جیسے لگ رہا تھا، اگر کمی تھی تو عام لوگوں کی ہنسی، شور اور غیر موجودگی کی تھی۔

24 مئی 2023 کو سری نگر میں جی 20 اجلاس کے موقعے پر سخت سکیورٹی (اے ایف پی)

انڈیا کی باقی ریاستوں میں چونکہ آج کل گرمی کی شدید لہر پائی جاتی ہے تو اس کے باعث اکثر لوگ کشمیر کے معتدل اور خوبصورت وادیوں کا رخ کرتے ہیں جن میں خاص طور سے دہلی میں بیرونی ممالک کے سفیر یا ان سے منسلک عملہ بھی شامل ہوتا ہے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

اپریل سے ستمبر تک کشمیر کا ہر ہوٹل، گیسٹ ہاؤس اور ہاؤس بوٹ تقریباً ہاؤس فل رہتا ہے۔ 90 کی دہائی میں سیاحت کو شدید نقصان ہوا تھا اور یہ صنعت تقریباً دم توڑ چکی تھی۔

چند برسوں سے سیاحوں کی تعداد کافی بڑھ چکی ہے اور ان میں وہ لاکھوں یاتری شامل ہیں جو ہر سال امرناتھ گپھا کے درشن کے لیے آتے ہیں۔

 حکومت کہتی ہے کہ اس سال جی 20 کے سیاحتی اجلاس کو کشمیر میں منعقد کرانے کا مقصد سیاحت کی صنعت کو فروغ دینا ہے۔ مگر جموں میں کانگریس کے کارکن منوج سنگھ کہتے ہیں، ’وزیراعظم مودی اپنے کشمیری عوام سے بات بھی نہیں کرنا چاہتے مگر بیرون ملک کے سفارت کاروں کو کشمیر بھیج کر ضرور دکھانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیریوں کو بزور طاقت جیت لیا ہے۔‘

انہوں نے کہا، ’حکومت بتانا چاہتی ہے کہ پانچ اگست 2019 کو اندرونی خودمختاری ختم کر کے اور ریاست کو دو یونین ٹیریٹیریز میں تبدیل کرنے کے بعد خطے میں کوئی شورش یا تحریک باقی نہیں رہی ہے اور یہاں امن کی فضا قائم ہوئی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا پر اسرار خاموشی کو امن کہا جا سکتا ہے؟‘

چین، ترکی، سعودی عرب اور انڈونیشیا نے جی 20 کے اجلاس میں شرکت نہیں کی، بلکہ چین نے اس پر بیان جاری کرتے ہوئے اپنے موقف کو دہرایا کہ کشمیر جیسے متنازع خطے میں عالمی برادری کو بلانا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

دو دن تک جاری رہنے والے جی 20 کے اس اجلاس کو جس طرح تارکین وطن کشمیریوں نے ہزاروں میل دور بیٹھ کر ٹی وی پر دیکھا، بالکل اسی طرح سری نگر میں موجود ہر شہری نے بھی دیکھا جنہیں بعض علاقوں میں غیر اعلانیہ بندشوں کی وجہ سے انڈین میڈیا کی اسی فوٹیج پر اکتفا کرنا پڑا جو ان کے صحن سے لی گئی تھیں مگر جن میں سکیورٹی فورسز کے بغیر کوئی اور نہیں تھا۔

بعض رپورٹوں میں بتایا گیا کہ سری نگر کے مضافات میں وردی پوشوں کی موجودگی میں غیر وردی پوشوں کو بھی سکیورٹی پکٹوں پر بٹھایا گیا تھا، البتہ اس بار خاردار تاریں ہٹا کر جی 20 کے رنگین بورڈ نصب کیے گئے تھے۔

بقول ایک صحافی ’یہ مندوبین اتنے ناسمجھ تو نہیں  کہ انہیں ایک ہی بالوں والے سٹائل کے افراد نظر نہیں آئیں گے جنہیں مقامی پیرہن میں بعض مقامات پر تعینات کیا گیا ہے۔‘

برلن میں جنوب ایشیا امور کے استاد گریم نارٹن کا خیال ہے کہ ’اگر انڈیا کو کشمیر میں قیام امن کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کے لیے 20 سے زائد ملکوں کے مندوبین کی دو روز تک ان کی خاطر داری کرنا پڑی ہے تو شاید یہ سرٹیفکیٹ مستند نہیں کہلایا جا سکتا اور نہ یہ بات کسی کو ہضم ہو گی کہ سبھی کشمیری اچھے بچے بن گئے ہیں۔‘

قومی دھارے سے منسلک مقامی جماعتوں نے سوال اٹھایا کہ ’اگر حکومت کے مطابق کشمیر میں سب بھلا چنگا ہے تو یہاں انتخابات کیوں نہیں کرائے جاتے یا بی جے پی کو ابھی تسلی نہیں ہوئی کہ وہ قیام امن کے ڈرامے کے بعد اب انتخابات بھی جیت سکتی ہے۔‘

یہ بھی درست ہے کہ وادی میں آزادی پسندوں کا کوئی نام و نشان نہیں ہے جو کچھ ہیں وہ شاید غاروں اور گپھاؤں میں پناہ لے چکے ہیں۔ ہاں، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں چند لوگوں کو جمع کر کے حریت کانفرنس کی موجودگی کا احساس دلایا گیا۔

اب کی بار احساس دلانے کی ذمہ داری بلاول بھٹو زرداری پر ڈالی گئی تھی جو کشمیریوں کے پست حوصلے کو بحال کرنے کی کوشش میں مظفرآباد یہ باور کرانے آئے تھے کہ ہم کشمیر کو بھولے نہیں، کشمیر تو اندرون اور بیرون ملک ہمارے لیے ترپ کا ایسا پتہ ہے کہ جس کو جب چاہیے کھیل سکتے ہیں۔

سری نگر میں ہوائی اڈے سے لے کر بلیوارڈ تک کا راستہ رنگین پوسٹروں اور قمقموں سے سجایا گیا تھا جو واقعی ڈزنی لینڈ کی تصویر جیسے لگ رہا تھا۔ اگر کمی تھی تو عام لوگوں کی ہنسی، شور اور غیر موجودگی کی تھی۔

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے مصنوعی ہنسی اور مصنوعی انسان بنانے پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مندوبین کو رنگ برنگی شکارہ کشتیوں میں بٹھا کر ڈل جھیل کی سر کرائی گئی، مغل باغات کے حسن سے متعارف کرایا گیا، زبرون کی پہاڑیوں کے نیچے کھانا کھلایا گیا، کشمیری ہرن کے درشن کرائے گئے۔

ایک مندوب نے کھانا پروسنے والے ویٹر سے سرگوشی میں کہا کہ ’اس خوبصورت وادی میں انسان ناپید کیوں ہے، کہیں پر کوئی نظر نہیں آ رہا ہے، ناچ، گانا، ڈراما تو ٹی وی پر بھی دیکھا جا سکتا ہے لیکن یہاں کے شہریوں سے ملنے کا شوق پورا نہیں ہوا۔‘

کہتے ہیں کہ یہ سنتے ہی ویٹر کا سر چکرا گیا اور ہاتھوں میں تھامے روغن جوش کی ٹرے گرنے ہی والی تھی کہ غیر وردی پوش نے فوراً اس کو سہارا دیا۔

مندوب نے شرم سے آنکھیں جھکا لیں۔

حکومت کہتی ہے کہ ہالی وڈ کے ساتھ ساتھ اب یہاں غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا اور ایک رپورٹ کے مطابق اس سال دو کروڑ سیاح کشمیر وارد ہوں گے۔

اس سے یقیناً سیاحت کو فائدہ ہو گا، روزگار کے مواقع میسر ہوں گے، پہاڑوں میں چھپی وادیو ں کو دیکھنے کا موقع ملے گا، لیکن یہ بھی سوچنا لازمی ہے کہ اس چھوٹی سی جگہ پر دو کروڑ سیاحوں کا آنا ماحولیاتی توازن کو کیوں کر برقرار رکھ سکے گا۔

شیر کشمیر کنونشن کمپلکس سے ذرا دور (جہاں مندوبین اظہار خیال کر رہے تھے) سری نگر کا ڈاؤن ٹاؤن علاقہ 90 کی شورش میں پیش پیش رہا ہے۔

وہاں کے شہری ندیم بٹ کہتے ہیں کہ ’اگلی بار جی 20 کو ہمارے علاقے میں بلانا ہو گا، ہم بھی ڈزنی لینڈ سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں، ڈزنی لینڈ نہ بھی بنائیں مگر وہ سڑکیں تو بنائیں جن کو گذشتہ ایک دہائی سے پی ڈبلیو ڈی نے چھوا تک نہیں ہے، ہم بھی تو اپنے ہی ہیں۔‘

انڈیا جی 20 کے اجلاس کو اپنی کامیابی سے تعبیر کرتا ہے اور شاید یہ دکھانے میں کامیاب بھی ہو گیا کہ پہلی بار بیرونی ملکوں کے مندوبین کے دورے کے دوران آزادی پسندوں کی جانب سے ہڑتال کی کال نہیں دی گئی، انٹرنیٹ بند نہیں کیا گیا۔ بیشتر راستے کھلے رہے۔

لیکن کیا مندوب انڈیا کی میزبانی کے بعد یقین کر بیٹھے ہیں کہ کشمیر واقعی ایک پرامن جگہ بن گئی ہے؟

اگر ایسا ہے تو یورپ سمیت بیشتر ملکوں کو کشمیر جانے کی شہریوں کو دی جانے والے اپنی ایڈوائزری فوراً ہٹا دینی چاہیے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر