پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ انڈیا جی 20 کی صدارت کا غلط استعمال کر رہا ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر ’آج جیل بن چکا ہے، جہاں ہزاروں مسلمانوں کو غائب، مارا اور اندھا کیا جا چکا ہے۔ ان کی زمینیں چھین لی گئی ہیں اور جائیداد پر قبضے ہو چکے ہیں۔‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’انڈیا کی ریاستی دہشت گردی مسئلہ کشمیر کی حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ پانچ اگست 2019 کے بعد ظلم کا نیا دور شروع ہوا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’انڈیا کا ایجنڈا کشمیریوں کو ان کے علاقے میں اقلیت بنانا ہے۔ پاکستان اس حوالے سے انڈیا کے اقدامات کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کشمیر کے بغیر ادھورا ہے۔ ہمارے خواب، خوشیاں، غم اور دل کی دھڑکن ایک ہے۔‘
انڈیا کے زیرانتظام جموں و کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں جی 20 ممالک کے سیاحتی ورکنگ گروپ کا اجلاس سوموار 22 مئی سے شروع ہو رہا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستان اور چین نے انڈیا کی جانب سے اس کے زیر انتظام متنازع علاقے میں اس اجلاس کے انعقاد کی مذمت کی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا دورہ کشمیر
ایک جانب جہاں انڈیا سری نگر میں جی 20 اجلاس کا انعقاد کر رہا ہے وہیں دوسری جانب پاکستان وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی تین روزہ دورہ کشمیر کا اعلان کر رکھا ہے اور وہ اس وقت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں موجود ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری تین روزہ دورے پر آزاد جموں و کشمیر پہنچ گئے
— PPP (@MediaCellPPP) May 21, 2023
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا مظفرآباد میں پاکستان پیپلزپارٹی کے اراکین قانون ساز اسمبلی نے استقبال کیا
ایک ایسے وقت میں جب ہندوستان جی ٹوئنٹی کا اجلاس مقبوضہ کشمیر میں… pic.twitter.com/6qSnXE5DPc
بلاول بھٹو کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کے علاوہ باغ میں ایک جلسے میں بھی شرکت کریں گے۔
اجلاس کی تیاریاں، علاقے میں سخت سکیورٹی
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کا علاقہ گذشتہ کئی دہائیوں سے عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کا مرکز رہا ہے جو اس علاقے کا الحاق پاکستان سے کرنا چاہتے ہیں۔
اس کشیدگی میں یہاں سینکڑوں عام شہری، انڈین فوجی اور کشمیری عسکریت پسند جان سے جا چکے ہیں۔
پاکستان اور انڈیا گذشتہ 75 سال سے پورے کشمیر پر ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
انڈین پولیس کے مطابق جی 20 اجلاس کے موقعے پر ریاست میں سکیورٹی کو سخت کر دیا گیا ہے تاکہ کسی ’دہشت گرد‘ حملے کو روکا جا سکے۔
یہ سال 2019 میں نئی دہلی کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد اس علاقے میں ہونے والی پہلی سفارتی سرگرمی ہے۔
جی 20 سیاحتی کمیٹی کا یہ تین روزہ اجلاس ڈل جھیل کے کنارے سخت سکیورٹی کے حصار میں منعقد کیا جا رہا ہے۔
اس علاقے کی جانب جانے والی سڑکوں پر نئی رکاوٹیں اور بجلی کے کھمبے لگائے گئے ہیں جن پر انڈیا کا پرچم پینٹ کیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق ’یہ ظاہر کرتا ہے کہ خطے میں امن اور حالات معمول پر آ چکے ہیں۔‘
انڈین حکومت کشمیر میں سیاحت کو فروغ دینے کی کوششیں کرتی رہی ہے اور ہر سال یہاں لاکھوں شہری سیاحت کی غرض سے آتے ہیں۔
سعودی عرب، چین، ترکی اور انڈونیشیا کی عدم شرکت؟
اس اجلاس میں چین کا وفد بھی شرکت نہیں کر رہا۔ لداخ کے علاقے میں انڈیا اور چین بھی ایک دوسرے کے ساتھ مسلح جھڑپیں لڑ چکے ہیں۔ چین انڈین ریاست اروناچل پردیش کو بھی اپنے علاقے تبت کا حصہ قرار دیتا ہے جبکہ کشمیر کو ایک متنازع علاقہ تسلیم کرتا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے جمعے کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’چین متنازع علاقے میں جی 20 اجلاس کے انعقاد کی مخالفت کرتا ہے اور ایسے کسی اجلاس میں شریک نہیں ہو گا۔‘
اس کے علاوہ سعودی عرب، ترکی اور انڈونیشیا کے اس اجلاس میں شرکت کے امکانات تاحال کم ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سال 2023 کے لیے جی 20 کی صدارت انڈیا کے پاس ہے جس نے ملک بھر میں اس کے 100 سے زائد اجلاسوں کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
چین نے لداخ اور اروناچل پردیش میں ہونے والے اجلاسوں میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔
امریکہ اور برطانیہ کا موقف
ادھر جی 20 کے سیاحتی ورکنگ گروپ کے سری نگر میں ہونے والے اجلاس پر برطانیہ کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں شرکت کے فیصلے سے ان کے کشمیر پر دیرینہ موقف میں ’کوئی تبدیلی‘ نہیں آئی۔
جب کہ امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کو براہ راست مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔
جی 20 سربراہان کی بیٹھک
پیر کو ہونے والا اجلاس محض ورکنگ گروپ اجلاس ہے جس میں صرف سیاحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والا وزرا اور ماہرین شامل ہوں گے۔
جی 20 کا سب سے اہم اجلاس جی 20 سمٹ ہے۔ نو سے دس ستمبر کو نئی دہلی میں لیڈران کی سمٹ ہو گی جس میں توقع ہے کہ رکن ممالک کے سربراہان مملکت اس میں شرکت کریں گے۔
رکن ممالک کے علاوہ بنگلہ دیش، مصر، متحدہ عرب امارات، سپین، نائجیریا، نیدرلینڈز، عمان، سنگاپور، اور موریشیس کے سربراہان کو بھی بطور مہمان مدعو کیا گیا ہے۔
ان ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ، عالمی بینک، آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر عالمی تنظیموں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔