سرائیکی موسیقی کی مٹھاس کی اصل چاشنی وہ گیت ہیں جنہوں نے 60 یا 70 کی دہائی میں آڈیو کیسٹس کے ذریعے شائقینِ موسیقی کو اپنا گرویدہ بنایا۔
سرائیکی موسیقی کی تاریخ میں عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی کا ذکر ایسے ہے جیسے کسی وجود میں روح۔
عطااللہ خان عیسی خیلوی کی خوش بختی ہے کہ جب انہوں نے گائیکی کا آغاز کیا تو ان سے قبل سرائیکی موسیقی خال خال ہی موجود تھی اور زیادہ تر ریڈیو میڈیم کے ذریعے خواجہ غلام فرید کی کافیاں پیش کی جاتی تھیں۔ چند ایک گلوکار تھے جو فوک گیت مقامی سطح پر شادی بیاہ کی تقریبات میں گایا کرتے تھے۔
عیسیٰ خیلوی صاحب نے جب گائیکی کا آغاز کیا تو انہیں جن شعرا کرام کا کلام میسر آیا، ان میں ایک معتبر نام سید مہجور بخاری کا بھی ہے، جن کا گیت ’نکی جئی گل توں رسدئیں ڈھولا تیڈی کمال ہے‘ آج بھی 50 برس بعد اپنی لطافت کے ساتھ شائقینِ موسیقی کے دلوں پر راج کر رہا ہے۔
یہ وہ گیت ہے جو عطااللہ خان عیسی خیلوی صاحب کی شناخت کا پہلا سبب بنا، اس کے بعد ان کا اردو کلام ’دل لگایا تھا دل لگی کے لیے‘ معروف ہوا۔
سید مہجور بخآری کا اصل نام سید اللہ وسایا شاہ ہے۔ آپ ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی کے قصبے شہر سلطان میں 1948 میں پیدا ہوئے۔
آپ محلہ لوہاراں والہ کے مکین تھے۔ سید مہجور بخآری کا شجرہ نسب سید پیر عالم سلطان شاہ بخآری سے ملتا ہے جن کے نام پر اس قصبے کا نام ’شہر سلطان‘ رکھا گیا ہے۔
سید مہجور بخآری نے ابتدائی تعلیم مڈل تک شہر سلطان سے ہی حاصل کی۔ بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا، سو یہ شوق انہیں فقیر منش درویش شاعر جانباز جتوئی کی دہلیز پر لے گیا جہاں سے مہجور بخآری نے شاعری کا علم اکتساب فیض کیا۔
سید مہجور بخآری زیادہ تر نظموں کے خالق تھے لیکن انہوں نے سرائیکی شاعری میں دو بڑے، گیت اور غزل کے ساتھ ساتھ مسدس اور مخمس بھی لکھیں۔
مشاعروں میں دعوت ملتی تو ہر صورت حاضر ہوتے۔ ان کے پڑھنے کا انداز ہی دل کش تھا، جس کے باعث وہ مشاعروں کی جان تصورکیے جاتے تھے۔ اس زمانے میں مشاعروں میں پڑھنا بھی ایک امتحان ہوتا تھا جن مشاعروں میں جانباز جتوئی، سرور کربلائی جیسے بڑے بڑے شعرا کرام موجود ہوتے، وہاں مشاعرہ پڑھنا اور پھر مشاعرہ لوٹ لینا واقعی بہت بڑا اعزاز ہوتا تھا۔
آپ مشاعروں میں جاتے تو لوگ ان کے شہرہ آفاق گیت، جو اصل میں نظم نما گیت ہے، سننے کی فرمائش کرتے اور پھر سید مہجور بخاری اپنے مخصوص انداز میں وہ گیت تحت الفاظ میں پیش کرتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مستقل روزگار نہ ہونے کے باعث بھی وہ بڑے مسائل کا سامنا کرتے رہے۔ خاندان کاروبار کے سلسلہ ملتان منتقل ہوگیا، مگر شاہ صاحب نے شہر سلطان نہ چھوڑا اور اکیلے ہی گھر میں سکونت اختیار رکھی۔
میرا ان سے کئی سال تک رابطہ رہا، میں جب بھی اپنی زمینوں پر شہر سلطان جاتا تو روزانہ ان سے ان کے شاگرد خاص مجید کورٹ کے حمام پر ملاقات ہوتی۔ گھنٹوں ہم بیٹھتے اور ان کی زندگی کے حال سنتے۔
سید مہجور بخاری 2007 میں ایک رات ڈی جی خان سے مشاعرہ پڑھ کر واپس آئے اور اپنے کمرے میں دیا جلا کر سو گئے۔ سردی کی رات تھی، گھر میں بجلی جیسی سہولت بھی نہ تھی، نہ جانے رات کے کس پہر دیے کی آگ نے ان کے بستر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور یوں سید مہجور بخاری اپنے بستر میں جل کر خاکستر ہوگئے۔
صبح اہل محلہ کو معلوم ہوا تو دروازے توڑ کر اندر داخل ہوئے، سید مہجور بخاری ملک عدم روانہ ہوچکے تھے۔ان کے ساتھ ان کا مجموعہ کلام ’لاہندا سجھ‘ جو کچھ کمپوز ہوچکا تھا، وہ بھی ساتھ جل کر ختم ہوگیا۔
ان کے محلے دار سخن نواز نوجوان سراج سیال نے جلے ہوئے اوراق کے کچھ نمونے مجھے دیے، جو ساتھ شائع ہو رہے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ عطااللہ خان عیسی خیلوی صاحب سمیت درجنوں گلوکاروں کے لیے گیت لکھنے والے اس بلند پایہ شاعر پر جب میں نے مضمون لکھنے کے لیے کام شروع کیا تو مجھے ان کی تاریخ پیدائش کی ضرورت تھی، جس کا علم باوجود کئی کوششوں کے نہیں ہون سکا۔
بھلا ہو شہر سلطان کے نوجوان وکیل جناب صفدر آتش صاحب کا، جن کو گزارش کی تو انہوں نے پانچ منٹ میں نوجوان شاعر سراج سیال کو میرے پاس دربار شریف پر بھیجا اور انہوں نے مواد کے لیے تعاون کیا۔
دوسرا المیہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ ان کی قبر جو احاطہ دربار پیر عالم سلطان بخاری میں بوہڑ کے درخت کے نیچے موجود ہے، اس کا نہ ہی کوئی مرقد ہے اور نہ ہی وہاں کوئی تختی آویزاں کی گئی ہے۔ وہ شخص جس نے ساری عمر اس شہر کا اور سرائیکی زبان کا نام روشن کرنے میں گزار دی، اسے گمنامی کی موت مار دیا گیا ہے۔
اس شہر کے گلوکار، شعرا اور صحافیوں نے بھی اس عظیم شاعر کی زندگی تو زندگی رہی ان کی قبر کی بھی قدر نہیں کی۔
گمنام قبر میں بسنے والے نامور شاعر سید مہجور بخاری کا نمونہ کلام:
تیڈا ذِکر دیوانہ کرے
رِند تا رِند میخانہ کرے
او پِلا ء آج پیار دا پیالہ
ساقی رِیس زمانہ کرے
مہجور بخاری کا مشہور گیت
نِکی جَئی گَل تُوں رُسدئیں ڈھولا تیڈی کمال اے
ڈیکھاں ناراض نہ تھی
سوہنڑا میڈی مَجال اے ۔
نکی جئی گل ۔۔۔۔۔۔
نظم
میڈاعشق وی توں۔۔
میڈا یا ر وی توں۔۔۔
میڈا دین وی توں۔۔۔
ایمان وی توں ۔۔۔۔۔
میڈی روح وی توں۔۔۔
میڈا جسم وی توں۔۔۔
میڈی قلب وی توں۔۔۔
جند جان وی توں ۔۔۔۔
میڈا قبلہ، کعبہ،
مسجد، ممبر،
مصحف تے قرآن وی توں۔۔۔
میڈے فرض فریضے۔۔۔
حج ذکاتاں۔۔۔
صوم صلات تے۔۔۔
اذان و ی توں۔۔۔۔
میڈا دَھرم وی توں۔۔۔
میڈا بھرم وی توں۔۔
میڈا شرم وی توں۔۔
میڈا شان وی توں۔۔۔
میڈا ذکر وی توں۔۔۔
میڈی فکر وی توں۔۔۔۔
میڈا ذوق وی توں۔۔۔
وَجدان وی توں
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔