این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کریں گے: وزیر اعظم

وزیر اعظم شہباز شریف نے پشاور میں جرگے سے خطاب میں کہا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کے لیے کمیٹی کا پہلا اجلاس اگست میں بلایا جائے گا۔

وزیر اعظم شہباز شریف تین جون، 2025 کو پشاور میں جرگے سے خطاب کر رہے ہیں (اے پی پی)

وزیر اعظم شہباز شریف نے منگل کو پشاور امن و امان کی صورت حال پر قبائلی عمائدین کے ایک جرگے سے خطاب میں کہا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کے لیے کمیٹی قائم کی جائے گی اور اگست میں اس حوالے سے پہلا اجلاس بلایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا اور 2010 کے این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کے لیے وسائل مختص کیے گئے تھے۔

اے پی پی کے مطابق وزیر اعظم نے جرگے میں اس حوالے سے مزید کہا کہ ’آج یہاں مشرانِ علاقہ اور قبائلی عمائدین نے جو باتیں کی ہیں، وہ نہایت اہم ہیں۔ ان پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں مل بیٹھ کر فیصلے کرنا ہوں گے تاکہ ایک بہتر، مضبوط اور متحد پاکستان کی جانب بڑھا جا سکے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی بات کی، جو اسلام آباد میں ڈیڑھ ماہ قبل ہمارے درمیان زیرِ بحث آئی۔ اس پر میں نے فوری طور پر ایک کمیٹی تشکیل دی۔ این ایف سی میں صوبوں کی نمائندگی کے لیے نام دے دیے گئے ہیں اور اگست میں اس حوالے سے پہلی میٹنگ بلائی جائے گی۔‘

’2010 کے این ایف سی ایوارڈ میں طے پایا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں خیبرپختونخوا کو ایک فیصد اضافی فنڈز دیے جائیں گے، اور چاروں صوبوں نے اس پر اتفاق کیا تھا۔ یہ ایک درست اور جائز فیصلہ تھا، جو اس وقت تک جاری رہے گا جب تک دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہ ہو جائے۔ تاہم اس میں بلوچستان کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔‘

’اب تک خیبرپختونخوا کو اس مد میں 700 ارب روپے سے زائد کے فنڈز منتقل کیے جا چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے دیگر مسائل اور مطالبات کا بھی ذکر کیا، جن پر ہم افہام و تفہیم سے بیٹھ کر حل نکالیں گے۔‘

وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہمارے تمام وسائل دراصل پاکستان کے وسائل ہیں، اور ان میں تمام صوبوں کا برابر کا حصہ ہے۔ میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے رہا ہوں، جو گورنر خیبرپختونخوا، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا، کور کمانڈر، اور قبائلی زعما پر مشتمل ہوگی۔ اگر معاملہ مزید آگے بڑھا، تو ہم اسے پارلیمان میں بھی لے کر جائیں گے تاکہ مکمل قومی اتفاق رائے سے دیرپا حل نکالا جا سکے۔‘

انہوں نے خطاب کے دوران پاکستان انڈیا جنگ کے حوالے سے کہا کہ چھ اور سات مئی کو انڈین حملے کے بعد افواج پاکستان نے جس دلیری سے جواب دیا، وہ سبق انڈیا کبھی نہیں بھول پائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ’مودی سرکار کو شکست فاش ہوئی اور اب وہ اپنے زخم چاٹ رہی ہے۔ کبھی گولی مارنے کی بات کرتے ہیں اور کبھی پانی بند کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔‘

’میں واضح کر دوں کہ پاکستان کے پانی کے ایک، ایک قطرے پر قوم کا حق ہے۔ اگر انڈیا نے دوبارہ ایسی کوئی حرکت کی تو جواب وہی ہوگا جو پہلے دیا گیا۔‘

جرگے میں فیلڈ مارشل عاصم منیر، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور، گورنر فیصل کریم کنڈی، قبائلی مشران اور دیگر سیاسی و عسکری شخصیات شریک تھیں۔

وزیر اعظم نے خیبرپختونخوا کے عوام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ دلیر اور غیرت مند قوم ہے جس نے ہر موقعے پر پاکستان کا پرچم بلند رکھا۔ 1947 سے لے کر آج تک کے ہر دور میں خیبرپختونخوا کے عوام نے قربانیاں دیں جنہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔‘

شہباز شریف نے اپنے خطاب میں آرمی پبلک سکول (APS) حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جب یہ سانحہ پیش آیا تو پوری قوم نے ایک ہو کر سوچا اور متفقہ فیصلے کیے، جس کے بعد ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’صرف خیبرپختونخوا نہیں بلکہ بلوچستان میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے ہیں، ہمیں وہاں کی ضروریات پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔‘

پانی کے ذخائر اور وسائل کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہا کہ ’چاروں صوبوں کو مل بیٹھ کر فیصلے کرنا ہوں گے تاکہ ہم انڈیا کے ناپاک عزائم کو دفن کر سکیں اور پاکستان کو پانی کے بحران سے نکالا جا سکے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم معاشی میدان میں بھی اسی عزم کے ساتھ آگے بڑھیں جیسے دشمن کے خلاف یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔

’قوم ایک ہے، اور ہمیں پاکستان کی کامیابی کے لیے بڑے اور کڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔‘

’وفاقی حکومت خیبرپختونخوا کے تمام بقایاجات فوری ادا کرے‘

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈا پور نے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈین جارحیت کا افواج پاکستان کا منہ توڑ جواب قابلِ تحسین ہے اور وہ پوری قوم کو اس پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے لیڈر ہونے کا ثبوت دیا اور اُن کے حامیوں نے ملکی دفاع میں بھرپور ساتھ دیا جس پر وہ شکریہ ادا کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ملک کے دفاع اور سالمیت کے لیے قوم متحد ہے اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ہم نے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔

علی امین گنڈا پور نے سابق فاٹا اور پاٹا پر ٹیکس کے نفاذ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان علاقوں کے عوام کی معاشی حالت ایسی نہیں کہ وہ ٹیکس ادا کر سکیں، اس لیے وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ ان پر کوئی نیا ٹیکس عائد نہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ ضم اضلاع دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بری طرح متاثر ہوئے ہیں، اس لیے ان علاقوں میں خطیر سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔

’یہاں کے عوام نے ملک کی خاطر بے شمار قربانیاں دی ہیں اور اُن سے کیے گئے وعدے پورے کیے جانا وقت کی ضرورت ہے۔‘

وزیر اعلیٰ نے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت بے گھر افراد کے معاوضے کی رقم جلد از جلد جاری کرے۔

علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ میں ضم اضلاع کے حصے کی فوری منتقلی کا اعلان کیا جائے۔

’ہم کسی دوسرے صوبے کا حق نہیں مانگ رہے بلکہ اپنے جائز حصے کا مطالبہ کر رہے ہیں،‘ ان کا کہنا تھا۔

انہوں نے زور دیا کہ وفاقی حکومت خیبرپختونخوا کے تمام بقایاجات فوری ادا کرے، جن میں پن بجلی کے خالص منافع، ٹوبیکو سیس اور دیگر واجبات شامل ہیں۔

جرگہ سے خطاب کے دوران وزیر اعلیٰ نے ضم اضلاع میں پائیدار امن کے لیے جرگہ سسٹم کی بحالی پر بھی زور دیا اور کہا کہ مقامی تنازعات کے حل کے لیے یہ روایتی طریقہ کار مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔

افغانستان سے متعلق پالیسی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر پڑوسی ملک کے ساتھ مذاکرات ہونے ہیں تو ان میں خیبرپختونخوا کو شامل کرنا لازم ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی بھی عمل ادھورا ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان