زخمی فلسطینیوں کے جزیرے پر علاج کا منصوبہ: انڈونیشیا پر تنقید

یہ جزیرہ طویل انسانی ہمدردی کی تاریخ رکھتا ہے۔ ایک زمانے میں یہ ویتنامی پناہ گزینوں کے کیمپ کے طور پر استعمال ہوتا رہا اور حال ہی میں یہاں وبا کے دوران ایک ہسپتال قائم کیا گیا جس کی وجہ سے یہ عارضی طبی امداد کے لیے موزوں ہے۔

گالانگ جزیرے پر وبا کے قائم کیے گئے ایک ہسپتال کا فضائی منظر جو یکم اپریل 2020 کو ریکارڈ کیا گیا (فائل فوٹو/ روئٹرز)

انڈونیشیا کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ غزہ کے 2000 زخمی فلسطینیوں کے علاج کے لیے ان کے انخلا کے منصوبے کو حتمی شکل دے رہا ہے۔ زخمی فلسطینیوں کا ممکنہ طور پر غیر آباد جزیرے گالانگ پر علاج کیا جائے گا۔

ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار کے مطابق حکومت اس وقت اس ضمن میں سفری انتظامات، قانونی ڈھانچوں اور خارجہ پالیسی پر اثرات کے حوالے سے بین الوزارتی مشاورت کر رہی ہے۔

قبل ازیں رواں ماہ اعلان کیا گیا کہ انڈونیشیا زخمی فلسطینیوں کو علاج کی سہولت فراہم کرے گا، لیکن مزید تفصیلات نہیں دی گئی تھیں۔

حکومتی ترجمان حسن نصبی نے اس سے قبل صحافیوں کو بتایا کہ ’انڈونیشیا غزہ کے تقریباً 2000 رہائشیوں کو طبی امداد دے گا جو جنگ کا شکار ہوئے۔ وہ زخمی یا ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ اقدام انخلا کے مترادف نہیں۔‘

تنقید کرنے والوں نے اس تجویز کا موازنہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس پیشکش سے کیا کہ واشنگٹن غزہ کا کنٹرول سنبھال سکتا ہے اور اسے ’مشرق وسطیٰ کا ریویرا‘ (تفریحی مقام) میں بدل سکتا ہے۔ یہ ایسی تجویز جس سے فلسطینیوں کی ان کے علاقے میں واپسی کا حق ختم ہو جائے گا۔

تاہم انڈونیشیئن حکام نے زور دیا ہے کہ یہ امداد عارضی ہوگی جو فلسطینی حکام اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر فراہم کی جائے گی اور فلسطینیوں کے حق واپسی کا احترام کیا جائے گا۔

بات چیت آگے بڑھنے کے ساتھ، اطلاعات کے مطابق حکام مریضوں کو رکھنے کے لیے ممکنہ مقامات پر غور کر رہے ہیں۔ زیر غور ایک آپشن گالانگ کا جزیرہ ہے جو سنگاپور کے بالکل جنوب میں واقع ہے۔

یہ جزیرہ طویل انسانی ہمدردی کی تاریخ رکھتا ہے۔ ایک زمانے میں یہ ویتنامی پناہ گزینوں کے کیمپ کے طور پر استعمال ہوتا رہا اور حال ہی میں یہاں وبا کے دوران ایک ہسپتال قائم کیا گیا جس کی وجہ سے یہ عارضی طبی امداد کے لیے موزوں ہے۔

اگرچہ انڈونیشیا کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور وہ مسلسل فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتا آیا ہے، لیکن حکام علاج کے منصوبے کی تفصیلات بتانے میں محتاط رہے ہیں اور اس بات پر زور دیا ہے کہ گالانگ جزیرے کی تجویز اب بھی زیر غور کئی امکانات میں سے صرف ایک ہے۔

پارلیمان کے کمیشن ون، جو دفاع اور خارجہ امور کی نگرانی کرتا ہے، کے نائب چیئرمین ڈیو لاکونو نے برطانوی اخبار دا گارڈین کو بتایا: ’یہ بات چیت لاجسٹک امکانات، طبی تیاری اور قانونی ڈھانچوں پر مرکوز رہی ہے۔ کمیشن ون کو سٹریٹجک اثرات کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ خاص طور پر انڈونیشیا کی خارجہ پالیسی کے انداز اور علاقائی استحکام کے حوالے سے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ جزیرہ گالانگ کو ایک ممکنہ مقام کے طور پر نمایاں کیا گیا لیکن مغربی جاوا اور وسطی جاوا کی دیگر سہولیات بھی زیر غور ہیں کیوں کہ وہ بڑے ہسپتالوں اور ٹرانسپورٹ نیٹ ورکس کے قریب واقع ہیں۔

حکام تسلیم کرتے ہیں کہ یہ تجویز سیاسی طور پر حساس ہے۔ بعض اسلامی رہنماؤں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اسرائیل کے ’فریب‘ میں آ گئی اور یہ سوال اٹھایا کہ آخر میں فلسطینیوں کی واپسی کو یقینی بنانے کی کیا ضمانتیں موجود ہیں؟

انڈونیشیا کی وزارت خارجہ میں ایشیائی، بحرالکاہل اور افریقی امور کے ڈائریکٹر جنرل عبدالقادر جیلانی نے کہا کہ ’مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ فلسطینیوں کے واپسی کے حق کا احترام کس طرح یقینی بنایا جائے، کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ فکر مند ہیں کہ اس طرح کی پالیسی کو دوسرے انداز سے بھی لیا جا سکتا ہے۔

’اس لیے ہمیں یقینی بنانا ہوگا کہ یہ بین الاقوامی انسانی قانون کے اصول کے مطابق ہو، اور خاص طور پر اس بات کے حوالے سے کہ فلسطینیوں کے حق واپسی کا احترام کس طرح کیا جائے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس منصوبے پر عمل درآمد میں بہت زیادہ پیچیدگی ہے۔ خاص طور پر اس کے سیاسی اور تکنیکی پہلوؤں کے لحاظ سے۔‘

قبل ازیں رواں ہفتے انڈونیشیا نے اپنے 80ویں یوم آزادی کے موقعے پر غزہ میں فضا سے تقریباً 18 ٹن امداد گرائی، جس میں خوراک، ادویات اور کمبل شامل تھے، اور مجموعی طور پر 800 ٹن تک امداد فراہم کرنے کا منصوبہ ہے۔

جکارتہ کے سینٹر آف اکنامک اینڈ لا سٹڈیز سے تعلق رکھنے والے محمد ذوالفقار رحمت نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ انڈونیشیا کو اسرائیل کے خلاف زیادہ سخت موقف اختیار کرنا چاہیے تاکہ ’اسرائیلی نسل پرستی کا خاتمہ کیا جا سکے۔‘

ڈاکٹر رحمت کا کہنا تھا کہ ’انڈونیشیا نے غالباً کئی عوامل کی وجہ سے زیادہ سخت مؤقف اختیار نہیں کیا۔ ان میں دوسری طاقتوں سے تعلقات برقرار رکھنے کی اس کی ضرورت، علاقائی سیاست کی پیچیدگیاں اور اپنے اتحادیوں کی خاطر اسرائیل کی دشمنی مول لینے کے ممکنہ نتائج کے خدشات شامل ہیں۔‘

فلسطینیوں کو طبی سہولت فراہم کرنے کی تجویز ابتدا میں صدر پرابوو سبیانتو نے اپریل میں مشرق وسطیٰ کے پانچ ممالک کے دورے کے دوران پیش کی۔

اس وقت انہوں نے اعلان کیا تھا کہ انڈونیشیا ’تیار ہے کہ وہ ان لوگوں کا انخلا کرے جو زخمی یا صدمے کا شکار ہیں، اور یتیم بچوں کا بھی، اگر وہ انڈونیشیا منتقل ہونا چاہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا: ’فلسطینیوں کی سلامتی اور ان کی آزادی کی حمایت میں انڈونیشیا کے عزم نے ہماری حکومت کو زیادہ فعال انداز میں اقدامات کرنے پر مجبور کیا۔‘

اس وقت انڈونیشیا کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ وہ ’فلسطینیوں کو غزہ سے زبردستی بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کو سختی سے مسترد کرتی ہے۔‘

گاجا مادا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست کی پروفیسر سیتی موتیہ ستیاوتی نے قبل ازیں کہا کہ غزہ کے 2000 باشندوں کو طبی علاج کے لیے انڈونیشیا لانا طویل فاصلے کی وجہ سے غیر مؤثر ہوگا اور زیادہ عملی بات ہو گی کہ ان کا علاج قریبی عرب ممالک میں کیا جائے۔

انہوں نے نقل و حرکت کے مسائل کو بھی اجاگر کیا، جن میں مریضوں کے سفر اور گالانگ جزیرے پر طبی سہولیات کی دستیابی شامل ہے۔

انہوں نے کہا: ’ہمیں پہلے غزہ کے لوگوں کی حالت کا جائزہ لینا ہوگا۔ اگر ان کی بیماری سنگین ہے تو کیا وہ یہاں لانے پر مزید بگڑ جائے گی؟ یہ بہت خطرناک کام ہے کیوں کہ یہ فاصلہ بہت زیادہ ہے۔‘

انڈونیشیئن سوسائٹی فار مڈل ایسٹ سٹڈیز کے مشیر سمتھ الحدر کے حوالے سے انڈونیشیئن میڈیا ادارے کومپاس نے بتایا کہ ’چاہے ہم اس کا ادراک کریں یا نہ کریں، انڈونیشیا ایک ایسے اسرائیلی، امریکی منظرنامے میں پھنس جائے گا جسے ہماری حکومت کسی طور نظرانداز نہیں کر سکتی۔‘

’جزیرہ گالانگ واقعی مزید فلسطینیوں کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم فلسطین کی مدد نہیں کر رہے ہوں گے بلکہ اسے ختم کر رہے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم بھی اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ نسلی صفائی میں شریک ہیں اور اس سے انڈونیشیا کے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا