میرے ایک استاد نے مجھ سے جو سب سے بڑا جھوٹ بولا وہ یہ تھا کہ مجھے تقسیم کرنا سیکھنا چاہیے۔ ایک پوری نسل نے یہ دعویٰ سنا، جو اس غلط فہمی پر مبنی تھا کہ جب ہم بڑے ہوں گے تو اس وقت ہماری جیبوں میں کیلکولیٹر نہیں ہوں گے۔
اس وقت یہ ناقابلِ یقین بات لگتی تھی کہ ایک دن ہر شخص کے پاس ایک ایسا آلہ ہو گا، جو نہ صرف کیلکولیٹر ہو گا بلکہ جس میں انسانی علم کا خزانہ بھی موجود ہو گا۔ سمارٹ فون کی آمد نے مجھے وہ تمام ریاضی، تاریخیں، جغرافیائی مظاہر اور سائنسی فارمولے بھلا دیے ہیں، جو میں نے 1990 کی دہائی اور 2000 کی دہائی کے اوائل میں سکول میں سیکھے تھے اور اس کا میری روزمرہ زندگی پر کوئی نمایاں اثر نہیں پڑا۔
لیکن اب ایک نئی ٹیکنالوجی نہ صرف یہ چیلنج دے رہی ہے کہ ہمیں کیا سیکھنا چاہیے، بلکہ یہ بھی کہ ہمیں کیسے سیکھنا چاہیے۔ مصنوعی ذہانت پر مبنی ایپس کی تازہ ترین نسل، جیسے کہ چیٹ جی پی ٹی، جیمینائی اور ڈیپ سیک وغیرہ روایتی ہوم ورک اسائنمنٹ کو بیکار بنا رہی ہیں، یہ لمحوں میں نئے مضامین لکھ سکتی ہیں یا ورک شیٹس مکمل کر سکتی ہیں۔
’گرامرلی‘ نامی تحریر میں مدد دینے والی ایپ کے ایک حالیہ اشتہار میں ایک طالب علم کو ہوم ورک کرتے دکھایا گیا۔ جب وہ نئی اے آئی ٹول استعمال کرتا ہے تو کہہ اٹھتا ہے، ’ارے واہ، یہ تو بالکل میری طرح ہے، بس مجھ سے بہتر!‘
اساتذہ تیزی سے اے آئی کو اپنی کلاسز میں شامل کر رہے ہیں اور کورسز کو اس بنیادی تبدیلی کے مطابق ڈھال رہے ہیں، لیکن کچھ فلسفی اور ماہرین مستقبل کے نصاب کو مکمل طور پر از سرنو تحریر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
زیادہ سے زیادہ حامیوں کے مطابق، توجہ کا مرکز اب تنقیدی سوچ، منطق اور استدلال ہونا چاہیے۔ ان صلاحیتوں کے بغیر اے آئی پر بہت زیادہ انحصار کرنے کا خطرہ ہے۔ اگر ہماری ساری استدلالی ذمہ داریاں چیٹ جی پی ٹی جیسے ٹولز سنبھال لیں اور وہ تمام حقائق اپنے پاس رکھ لیں جنہیں ہم پہلے یاد رکھنے پر مجبور ہوتے تھے، تو خطرہ ہے کہ ہمارا دماغ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے کمزور ہونے لگے۔
اسی سال کے شروع میں، مائیکروسافٹ اور امریکہ کی کارنیگی میلن یونیورسٹی کے محققین نے معلوم کیا کہ تخلیقی اے آئی پر حد سے زیادہ انحصار کرنے سے کارکن تخلیقی صلاحیت، فیصلہ سازی اور مسئلہ حل کرنے جیسی بنیادی صلاحیتیں کھو رہے ہیں۔
اپنی تحقیق میں انہوں نے لکھا: ’اگر ٹیکنالوجیز کا غلط استعمال کیا جائے، تو یہ ان ذہنی صلاحیتوں کے زوال کا باعث بنتی ہیں، جنہیں محفوظ رہنا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا: ’آٹومیشن کی ایک بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ جب وہ معمول کے کام میکانکی طریقے سے سنبھال لیتی ہے اور غیرمعمولی صورتِ حال کا سامنا انسانی صارف پر چھوڑتی ہے، تو وہ صارف کو فیصلے کی مشق کے مواقع سے محروم کر دیتی ہے اور یوں ذہنی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے۔‘
یہ طرزِ عمل سوشل میڈیا پر اے آئی کے استعمال میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ حالیہ وائرل رجحان میں لوگ ایک چیز کاغذ یا کپڑے کے پیچھے رکھ کر فلم بنا رہے ہیں اور پوچھتے ہیں: ’آئینہ کیسے جانتا ہے کہ اس کے پیچھے کیا ہے؟‘
ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک حالیہ ویڈیو پر درجنوں صارفین نے ایلون مسک کی کمپنی ایکس اے آئی کے چیٹ بوٹ ’گروک‘(Grok) کو ٹیگ کیا تاکہ اس کا جواب معلوم کیا جا سکے۔ اے آئی چیٹ بوٹ نے حسبِ فرمائش جواب دیے، بجائے اس کے کہ صارفین خود اپنا ذہن استعمال کر کے کسی نتیجے پر پہنچتے۔
مستقبل کی طرف دیکھا جائے تو جدید اے آئی سسٹمز ہمیں مجبور کر سکتے ہیں کہ ہم سیکھنے اور جینے کے انداز کو ایک ایسی دنیا کے لیے نئے سرے سے ترتیب دیں، جہاں بڑی حد تک کام کی ضرورت نہ ہو۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر نک بوسٹرم، جو اپنی 2014 کی کتاب ’سپر انٹیلی جنس‘ میں بے قابو اے آئی سے خبردار کر چکے ہیں، اپنی تازہ کتاب Deep Utopia: Life and Meaning in a Solved World میں اس مسئلے کا ذکر کرتے ہیں۔
اس میں وہ ایک ایسے مستقبل کا تصور کرتے ہیں جہاں اے آئی اور روبوٹس انسانی صلاحیتوں کے برابر یا ان سے بہتر کام کر سکتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں: ’بچوں کو محض پیداواری کارکن بننے کے لیے تیار کرنے کے بجائے، ہمیں انہیں خوشحال اور بھرپور انسان بننے کی تعلیم دینی چاہیے۔ شاید اس میں گفتگو کا فن سکھانا اور ادب، فنون، موسیقی، ڈرامہ، فلم، فطرت اور کھیلوں کی قدر کرنا سکھانا بھی شامل ہو۔
’اس کے علاوہ اس میں ذہن سازی اور مراقبے کی تکنیکیں پڑھانا، مشغلے، تخلیقی صلاحیت، کھیل، دلچسپ مذاق، کھیل ایجاد کرنا۔ کھانے پینے کا ذوق اور دوستی کا جشن منانا بھی شامل ہے۔‘
گذشتہ سال ’دی انڈپینڈنٹ‘ سے بات کرتے ہوئے پروفیسر بوسٹرم نے انہیں ’مستقبل کے انقلابی ممکنات‘ کہا۔ یہ وہ وقت ہو گا جب موجودہ دنیا کے مسائل حل ہو جائیں اور آگے کی ترقی کی ذمہ داری مصنوعی ذہن اور جسم سنبھال لیں گے۔ اس مرحلے پر معاشرہ افادیت، کارکردگی اور منافعے سے ہٹ کر احساس، شکرگزاری، خود اختیار سرگرمی اور کھیل کی طرف جا سکتا ہے۔
شاید اس میں جسمانی ہنر سیکھنا شامل ہو یا وہ کھیل جنہیں اے آئی بہت پہلے سمجھ چکی ہو۔ اے آئی نے شطرنج 30 سال پہلے ہی سیکھ لی تھی، مگر ہم آج بھی شطرنج کھیلنا چاہتے ہیں۔
آئی بی ایم کے کمپیوٹر ’ڈیپ بلو‘ نے تقریباً 30 سال پہلے (شطرنج کے عالمی چیمپیئن) گیری کاسپاروف کو ہرایا تھا، مگر لوگ اب بھی شطرنج کھیلتے اور دیکھتے ہیں۔ اسی طرح اگر اے آئی علم کا ماہر بن بھی جائے، ہم علم حاصل کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔
اس کا مطلب ہے کہ مستقبل کے اس منظرنامے میں بھی سیکھنے کی جگہ باقی رہے گی۔
پروفیسر بوسٹرم لکھتے ہیں: ’میرا خیال ہے کہ سیکھنے کا شوق فارغ البالی کی زندگی کو بے حد خوشگوار بنا سکتا ہے۔ ہم سائنس، تاریخ اور فلسفے کے ذریعے ذہن کو وسیع کر سکتے ہیں تاکہ اپنی زندگی کے بڑے تناظر، پیٹرن اور معانی کو سمجھ سکیں۔‘
یہ بات تقریباً ایک صدی پہلے سابق امریکی خاتونِ اول اور سماجی کارکن ایلینور روزویلٹ نے بھی کہی تھی، جو سیکھنے کی اصل قدر کی قائل تھیں۔
انہوں نے کہا تھا: ’اصل چیز سیکھنا ہے۔ سیکھنا اور جینا۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent