2028 کے اولمپکس امریکی شہر لاس اینجلس میں منعقد ہوں گے۔ ان کھیلوں میں سکواش پہلی مرتبہ شامل کیا جا رہا ہے۔
سکواش کا نام ہو اور پاکستان کا نام ذہن میں نہ آئے، یہ ممکن نہیں۔ نواں کلے کے پٹھانوں نے گویا سکواش کو اپنا کھیل بنا لیا تھا اور کئی دہائیوں تک کسی کو سکواش کورٹ میں پر مارنے کی بھی جرات نہیں ہوئی۔
اس زمانے میں اگر یہ کھیل اولمپکس کا حصہ ہوتا تو پاکستان کے پاس کئی تمغے مزید ہوتے۔
اب قحط الرجال کی سی صورت حال ہے اور کھیل کی دنیا میں بھی یہی معاملہ ہے۔ پاکستان میں آج سکواش کے منظر نامے پہ نظر ڈالیں تو کوئی خاص نام نظر نہیں آتا۔
میں سکواش پہ لکھے اپنے ڈرامے ’ستاروں سے آگے‘ کے سلسلے میں سکواش کورٹس کے چکر لگاتی رہی۔
سکواش کے بڑے ناموں سے بھی ملنا ہوا، دو ایک ٹرائلز بھی دیکھے، کچھ نئے کھلاڑیوں سے بھی ملاقات ہوئی اور سکواش اکیڈمیز پہ بھی نظر پڑی۔
ہماری نسل نے قمر زمان خان، جہانگیر خان اور جان شیر خان کا دور دیکھا ہوا ہے۔ ان لوگوں کی باڈی لینگویج ہی بتا دیا کرتی تھی کہ چیمپیئن کون ہے۔
اس دور کی تصاویر اٹھا کر دیکھ لیں۔ ان کے چہرے کے تاثرات، شاٹ کے زاویے اور نظر کا جماؤ، سب بتا دے گا کہ کھلاڑی کی توجہ اور مقصد کیا ہے۔
آج پاکستان میں دو اہم نام نور زمان اور حمزہ خان نظر آتے ہیں۔ ان کے علاوہ کئی اور کھلاڑی بھی ہیں، مگر ان دو میں ہمارے پرانے کھلاڑیوں کے انداز کی جھلک نظر آتی ہے۔
لڑکیوں کی بات کی جائے تو زیدی سسٹرز کا نام سوشل میڈیا پہ بارہا نظر آتا ہے۔ میں نے ان کے کچھ میچ بغور دیکھے، محنت کر رہی ہیں مگر وہ شعلہ نظر نہیں آرہا جو اولمپکس کے معیار تک لے جا پائے۔
کہنے کو اولمپکس ابھی دو سوا دو سال دور ہیں مگر اس معیار تک پہنچنے کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
ممکنہ طور پہ اولمپکس کے لیے 16 کھلاڑی لیے جائیں گے، جن میں شامل ہونا پہلا مرحلہ ہے۔ اس مرحلے تک آنے کے لیے یقیناً کوالیفائنگ راؤنڈز ہوں گے۔
ان کوالیفائنگ راؤنڈز میں مدمقابل وہی کھلاڑی ہوں گے جو اس وقت سرکٹ میں کھیل رہے ہیں۔
گویا پہلا قدم یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ٹورنامنٹس میں نہ صرف شرکت کی جائے بلکہ ہر کھلاڑی کو کھیل کو سمجھ کے، ہرا کے اپنے آپ کو ٹاپ سیڈنگ میں نہ صرف لایا جائے بلکہ یہ مقام برقرار بھی رکھا جائے۔
اس سلسلے میں میری سپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل یاسر پیرزادہ سے بات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ سہولیات موجود ہیں اور ہم انفرادی کھیلوں پہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں جہاں کامیابی کا امکان ہے، ان ہی کھیلوں میں سکواش بھی ہے۔
قمر زمان سے بات ہوئی تو ان کو بہت پرامید پایا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لڑکے اسی لیگ کے ہیں جو بڑے ٹورنامنٹس جیتتے ہیں، ان کو اداروں کی طرف سے ہر سہولت ملی ہوئی ہے۔
بقول ان کے ان بچوں کو اتنی سہولتیں دی گئی ہیں جتنی خود انہیں، جہانگیرخان اور جان شیر خان کو بھی نہیں ملی تھیں۔
اب ضرورت ان کے ذاتی فوکس کی ہے۔ یہ بات وہ خاص طور پہ حمزہ اور نور کے لیے اور عمومی طور پہ سب کھلاڑیوں کے لیے کہہ رہے تھے۔
مگر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جیسے پڑھائی میں آپ کسی طالب علم کو ہر قسم کی کتاب لا کر دے دیں لیکن وہ پڑھے ہی نہ تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جہانگیر خان بھی اسی تناظر میں بات کر رہے تھے کہ کھلاڑی کی توجہ ہو گی تو کامیابی ملے گی۔
سوشل میڈیا پہ خود کو چیمپیئن ڈکلیئر کر دینے سے انسان چیمپیئن نہیں بنتا۔
کامیابی کے لیے تین لفظ ہیں محنت، محنت اور محنت۔ اس کے باہر کچھ بھی نہیں۔
بات گھوم پھر کے وہیں آگئی کہ سکواش ہمارا کھیل ہے۔ پہلی بار اولمپکس میں شامل ہونے کے بعد سونے کے تمغے سے کم پہ تو ہم نے راضی ہونا نہیں۔
اس لیے جو محنت کرنی ہے وہ سونے کے تمغے کے لیے کرنی ہے۔
ہمارا ایک قومی رویہ بن چکا ہے کہ ہم ہر کام جذبے اور جنون سے کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دونوں جذبات انسان کی بقا کے لیے بہت ضروری ہیں لیکن اگر حکمت عملی کے ساتھ جذبہ اور جنون ہو گا تو کامیابی مسلسل ہو گی ورنہ تکے کا تیر ہونا ہمیشہ کام نہیں کرتا۔
حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ اس پہ میں نے پاکستان کے لیجنڈز کے ساتھ مزید گفتگو کی جس کا لب لباب یہی تھا کہ ہمارے پاس جو تین بہت بڑے نام ، قمر زمان، جہانگیر خان اور جان شیر خان ہیں، ان کی مہارت اور تجربے سے کام لیا جائے۔
سکواش کے لیجنڈری کوچ رحمت خان امریکہ میں مقیم ہیں۔ ان چاروں کی مشاورت اور معاونت کے ساتھ اگر آج ہی سے حکمت عملی بنا کر آگے بڑھا جائے تو اولمپکس کا گولڈ میڈل حاصل کرنا کوئی اچنبھے کا کام نہیں۔
مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ان لوگوں کی رائے کو اولیت دی جائے، صرف کندھے پہ رکھ کے بندوق نہ چلائی جائے۔ نہ فنڈز کی کمی ہے، نہ ٹیلنٹ کہیں دور ہے اور نہ مہارت تلاش کرنا پڑے گی۔
ہماری خواہش ہے، دعا ہے اور ہر ممکن کوشش ہے کہ پاکستان اولمپکس میں سونے کا تمغہ لائے۔ رائے اور حل بھی پیش کر دیا، اب ارباب حل عقد اگر 2028 تک کسی ضروری کام سے سوتے رہے اور پھر کسی نے سنہرے ماضی کو یاد کر کے ٹھنڈی آہیں بھریں تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔